سفرنامہ -۲

مالٹا ہوٹل کے ایک دروازےپر لکھا ہوا تھا: معذوروں کے لیے  حمام (Handicap toilets) مغربی دنیا میں معذوروں کے لیے  خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کو ہر جگہ خصوصی توجہ کامستحق سمجھا جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر دل میں یہ احساس ابھرا کہ خدایا، میں بھی عالم انسانی کا ایک معذور شخص ہوں۔ تو میرے ساتھ میرے عمل کے اعتبار سے نہیں بلکہ میرے عذر کے اعتبار سے معاملہ فرما۔ اپنی رحمتِ خاص سے میری بخشش فرماد ے۔

 مالٹا کا مسلم عہد مسلمانوں کے دورِ عروج میں تھا۔ اس لیے  یہاں کی ہر چیز پر مسلم تہذیب کی گہری چھاپ اب تک موجود ہے۔ یہاں کے مکانات بیشتر مسلم اسپین کے طرز پر بنائے گئے ہیں۔ مقامات کے نام ابھی تک عربی میں ہیں۔ مثلا غار، رباط، سلیمہ، مدینہ وغیرہ۔ مگر قومی اسباب سے مسلمانوں کے خلاف تعصب پایا جاتا ہے۔ مثلاً سیاحوں کے لیے  تیار کیے ہوئے ایک پمفلٹ میں نپولین کے ذیل میں" مالٹا میں نپولین کے دستوں کی آمد" کا لفظ ہے، اور ترکوں کے ذیل میں "ترک فوجوں کا مالٹا پر حملہ" کا لفظ درج کیا گیا ہے :

MARSAXLOKK: The Turkish forces invaded Malta in 1565 from the shores of this village. Here also landed the troops of Napoleon to whom the knights surrendered in 1798.

یہ انسان کا عام مزاج ہے کہ وہ اپنوں کے لیے  ایک قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور غیروں کے لیے  دوسرے قسم کے الفاظ۔ تاہم اس کو پڑھ کر مجھے لکھنے والوں پر کوئی غصہ نہیں آیا۔ کیوں کہ یہ بات موجودہ مسلمانوں میں مزید اضافے کے ساتھ موجود ہے۔ آج مسلمانوں کے اکا بر تک کا یہ حال ہے کہ ان کو جس شخص یا جس گروہ سے شکایت ہو جائے اس کے لیے  ان کی زبان بالکل مختلف ہو جاتی ہے۔

 مالٹا جیسے چھوٹے اور دور دراز مقامات تاریخ کے اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب کہ دنیا میں عام طور پر مذہبی جبر کا دور دورہ تھا۔ لوگ حکومتوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے  اس طرح کے مقامات پر پناہ لیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مسیحی بزرگ نے رومی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے  مالٹا میں پناہ لی تھی۔ مالٹا کے بارے میں ایک تعارفی پمفلٹ میں یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ چرچ ابتداء ً ۱۴۱۷ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ۱۶۹۴ میں وہ دوبارہ بنایا گیا۔ یہ چرچ سینٹ اگا تھا سے منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ رومی شہنشاہ ڈیسیس کی تعذیب سے بھاگ کر مالٹا آئے تھے :

CHAPEL OF ST. AGATHA: This church was originally built in 1417, and redesigned by Lorenzo Gafa, in 1694. The church is dedicated to St. Agatha who, it is said, found shelter on Malta from the persecution of the Roman Emperor Decius (249 AD)

مذہبی جبر کے اس دور کو اسلام نے ختم کیا۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ عطیہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر معطی کا اعتراف کرنے والا کوئی نہیں۔ حتی کہ خود مسلمانوں میں بہت سے لوگ اس خدائی واقعہ کو اپنے قومی فخر کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ اس کو وہ شکر خداوندی کے خانے میں ڈالیں۔

عرب تہذیب کا اثر مالٹا پر اتنا گہرا پڑا کہ آج بھی وہ مالطی زبان کی صورت میں موجود ہے۔ مالطی زبان حقیقۃ ًعربی کی بگڑی ہوئی صورت ہے جس میں انگریزی اور اطالوی زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ موجودہ مالطی زبان انگریزی حروف میں لکھی جاتی ہے۔

 مثال کے طور پر مالطی زبان کا ایک اخبار (Nazzjon) ہے۔ اس کے شمارہ ۲۸ اکتوبر کی پہلی سرخی مذکورہ کا نفرنس کے بارے میں تھی۔ اس کے الفاظ اس طرح تھے :

Il-lum tibda 11-Hames Laqgha Internazzjonali

(اليوم تبدأ الخميس لقاء انٹرنیشنل)یعنی آج ۵ بجے انٹر نیشنل اجتماع شروع ہوگا۔

 ہندستان کے علماء نے ۱۸۵۷ میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تحریک شروع کی تھی جو اپنے آخری مرحلہ میں ریشمی رومال کی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس سلسلے میں دسمبر ۱۹۱۶ میں مولانا محمود حسن صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں ساڑھے تین سال تک مالٹا میں نظر بند رکھا گیا۔ جون ۱۹۲۰ میں وہ رہا کیے گئے۔ اس نظر بندی کے زمانے میں مولانا موصوف کے شاگرد خاص مولانا حسین احمد مدنی بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس سلسلے میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے:

"حضرت شیخ الہند کے زمانہ ٔنظر بندی میں جو لوگ ساتھ رہے ان میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا نام خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت کرنے اور زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے میں دن رات ایک کر دیا۔ ایک ادنی سا واقعہ ہے۔ مالٹا میں شدت کی سردی میں حضرت شیخ کے سرد پانی سے وضو کرنے کی تکلیف آپ سے دیکھی نہ گئی۔ تو آپ نے گرم پانی مہیا کرنے کا انتظام اور التزام اس طرح کیا کہ ساری رات ٹھنڈے پانی کا لوٹا سینے سے لگائے لحاف اوڑھے بیٹھے رہتے اور جسم کی حرارت سے گرم شدہ پانی کا لوٹا فجر کے وضو کے لیے  حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کر دیتے۔ یہ سلسلہ ایک یا دو دن نہیں پورے تین سال ۵ مہینے تک چلا۔"(الجمعیۃ ویکلی ۹ - ۱۵ اگست ۱۹۹۱)

اس واقعے کو ماننے کے لیے  یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پورے تین سال ۵ مہینے تک مالٹا میں متواتر شدت کی سردی پڑتی رہی۔ عام قاعدے کے خلاف وہاں موسم تبدیل نہیں ہوا۔ اس سے قطع نظر، خود یہ بات بڑی عجیب ہے کہ مولانا کا ایک شاگردان کے پاس ساری رات بیٹھے رہنے کی مصیبت اٹھا رہا ہے مگر مولانا اس کو منع نہیں فرماتے۔اگر مولانا نے جانتے ہوئے منع نہیں کیا تو یہ ان کی شرافت کے خلاف ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ مولانا کو اس کا علم نہ ہوسکا تو یہ اوربھی زیادہ عجیب ہے۔ کیوں کہ جو شخص خود اپنے گھر کے ایک واقعہ سے ساڑھے تین سال تک بے خبر رہے، وہ ان عالمی حالات سے کیوں کر باخبر ہو سکتا ہے جن کو جاننا برٹش امپائر کے خلاف تحریک چلانے کے لیے  ضروری تھا۔ ایک صورت میں مولانا کی شرافت مشتبہ ہوتی ہے اور دوسری صورت میں مولانا کی فراست۔ اب یہ مولانا کے معتقدین کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ دونوں میں سے کس صورت کو ترجیح دیتے ہیں۔

سفر سے پہلے میں نے ایک کتاب حاصل کی۔ اس کا نام " اسیرانِ مالٹا "ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس میں مالٹا کے مذکورہ اسیروں کے بارے میں تاریخی معلومات ہوں گی اور وہ مالٹا میں میرے کام آئیں گی۔ مگر کتاب کو پڑھنے کے بعد حیرت انگیز طور پر میں نے پایا کہ اس میں دوسری دوسری باتیں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ مگر اسیران مالٹا کے بارے میں کچھ نہیں۔ اگر چہ دوسری باتیں بھی اس میں زیادہ تر غیر تاریخی انداز میں ہیں۔ مگر اسیران مالٹاکے بارے میں جزئی تذکرے کے سوا کوئی بھی تاریخی یا غیر تاریخی معلومات اس کتاب میں مشکل سے ملے گی۔

اردو کتابوں کا عام طور پر یہی حال ہے۔ اردو زبان کا ارتقاء اس زمانے میں ہوا جب کہ مسلم اہل ِقلم اور مسلم اہلِ زبان سب کے سب ز وال کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں مشکل سے کوئی ایسی کتاب ملے گی جو حقیقی معنوں میں سائنٹفک انداز میں لکھی گئی ہو۔ جو لوگ صرف اردو کتابیں پڑھیں وہ علم سے اسی طرح بے بہرہ رہتے ہیں جس طرح دیوان غالب کو پڑھنے والا آدمی ارضیات سے۔

 مولانا محمود حسن صاحب اور مولانا حسین احمد مدنی کو گرفتاری کے بعد مالٹا لایا گیا تھا اورسا ڑھے تین سال تک ان کو یہاں رکھا گیا۔ ان پر انگریز کے خلاف باغیانہ سازش کا الزام تھا۔ ذاتی  طور پر مجھے اس واقعہ سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ کیوں کہ میرے نز دیک یہ محض ایک سیاسی واقعہ تھانہ کہ کوئی اسلامی واقعہ۔ تاہم وہ ہماری تاریخ کا ایک جزء ہے۔ اس بنا پر مجھے تلاش تھی کہ میں اس کے بارے میں ضروری تاریخی معلومات یہاں سے حاصل کروں۔

وقت کی تنگی کے باوجود، مجموعی طور پر میں نے اس کے لیے  پورا ایک دن گذارا۔ گاڑی لے کر مالٹا کے مختلف حصوں میں سفر کرتا رہا۔ پبلک لائبریری - نیشنل لائبریری اور کئی دوسری لائبریریاں اور میوزیم دیکھے۔ مگر کہیں کسی ریکار ڈ کا سراغ نہ ملا۔ یہاں کے نیشنل آرکائیوز میں ممکن ہے اس سلسلے کا کوئی ریکارڈ موجود ہو۔ مگر اس کا علم مجھے آخر میں ہوا۔ اور وہاں جانے کا وقت میں نکال نہ سکا۔ البتہ ٹیلیفون پر ان کو تفصیلات درج کرادی گئیں۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ تلاش کر کے بذریعہ ڈاک مطلع کریں گے۔

 تاہم اس تمام دوڑ دھوپ اور تلاش کا ایک فائدہ ہوا۔ وہ یہ کہ اس مخصوص معاملے سے متعلق اصل آدمی کا نام و پتہ معلوم ہو گیا۔ یہ مالٹا کے آرکائیوز کا انچارج تھا۔ اس سے ٹیلی فون پر بات کی گئی۔ اس نے کہا کہ ہمارے آرکائیوز میں برٹش دور کے بہت سے آثار ہیں۔ تاہم ان کی ترتیب ابھی باقاعدہ طور پرقائم نہیں ہو سکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا مطلوبہ ریکارڈ اس میں موجود ہو۔ مگر اس کو تلاش کرنا پڑے گا۔ ذیل میں ان صاحب کا پتہ درج ہے کوئی صاحب چاہیں تو ان سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں:

Mr. J. Caruana, National Archives,

Santo Spirito, Rabat, Malta. Tel. 00-356-459863

 ہم کو مالٹاکے اس خاص مکان کی تلاش تھی جہاں دونوں صاحبان کو قید کر کے رکھا گیا تھا۔ اس کے لیے  کئی پرانی عمارتیں  دیکھیں۔ جس عمارت کے بارے میں بھی لوگوں نے گمان ظاہر کیا اس کو جا کر دیکھا۔ مگر عمارت کا سراغ نہ مل سکا۔ تاہم جہاں کبھی ہم گئے وہاں کے لوگوں نے انتہائی ہمدردی اور تعاون کا اندازاختیار کیا۔

 مولانا محمود حسن صاحب جامعہ ملیہ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر جامعہ ضروری وسائل فراہم کرے اور اپنے کسی طالب علم کوکم ازکم ایک مہینے کے لیے  یہاں بھیجے اور وہ تمام ممکن مقامات پر جا کر مکمل تحقیق کرے تو امید ہے کہ کچھ ریکارڈ حاصل ہو جائے گا۔

 اس تلاش و تحقیق سے واپس آتے ہوئے ایک دکان پر نظر پڑی۔ اس کے بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا لے جائیے (Take away) آدمی اگر انھیں دو لفظوں کو سب کچھ سمجھ لے تو وہ گمان کرے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دکان میں داخل ہو اور جو چاہے وہاں سے بلاقیمت اٹھا لے جاؤ مگر ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں۔ ان لکھے ہوئے لفظوں میں کچھ اور الفاظ اپنی طرف سے ملانے پڑیں گے۔ اس کے بعد ہی ان کا مطلب سمجھا جا سکتا ہے۔ مزید الفاظ کو ملانے کے بعد پوری بات یوں ہے :قیمت ادا کرو اور لے جاؤ۔

یہ الفاظ عام طور پر ان دکانوں پر ہوتے ہیں جہاں کھانے کا تیار سامان فروخت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہو ٹل نہیں ہے جہاں آپ بیٹھ کر کھائیں۔ البتہ یہاں سے کھانے کی چیزیں خرید کر اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ ہر لفظ یا ہر عبارت اس وقت تک نامکمل ہے جب تک آپ اس میں اپنےحصے کے ضروری الفاظ شامل نہ کریں۔

 مالٹا میں ہماری معلومات کے مطابق، اس وقت دو مسجدیں ہیں۔ ایک قدیم مسجد ہے۔ یہ مسجد ترکوں کی بنائی ہوئی ہے۔ قدیم طرز کی کافی بڑی مسجد ہے۔ اس کو ہم صرف باہر سے دیکھ سکے۔ کیوں کہ وہ چاروں طرف سے بند تھی۔ غالباً وہ محکمہ آثارقدیمہ کے زیر انتظام ہے۔

 دوسری مسجد نئی ہے۔ یہ لیبیا کے تحت تعمیر شدہ اسلامک سنٹر کی مسجد ہے۔ اس سنٹر میں بظا ہر کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آئی۔ البتہ تعمیر کے اعتبار سے وہ کافی بڑا ہے۔ اور اس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد ہے۔ اس مسجد میں ہم نے ظہر کی نماز پڑھی۔ مسجد کے بیرونی دروازے پر ایک عربی کتبہ لگا ہوا ہے اس پر یہ عربی الفاظ درج ہیں : بسم الله وعلى بركة الله : وضع الأخ العقيد معمر القذافی حجر الأساس للمركز الإسلامي بجمهورية مالطا الصديقة بتاريخ ٢٧ رجب ١٣٩٨ھ  -  ٢  يوليو ١٩۷٨م

مالٹا سیاحوں کا شہر ہے۔ یہاں ہر روز کثرت سے ساری دنیا کے سیاح آتے رہتے ہیں۔ جس وقت ہم مذکورہ مرکز میں تھے، اس وقت بھی کچھ سیاح اسلامک سنٹر کو دیکھنے کے لیے  آئے۔ اگراس مرکز کو حقیقی معنوں میں دعوتی مرکز کے طور پر چلایا جائے تو اس کے ذریعہ سے عظیم الشان فائدےحاصل کیے جاسکتے ہیں۔

 مالٹا کے لیبی سنٹر میں چند افراد بطور کارکن ہیں۔ یہی اس سنٹر کی دنیا ہے۔ یہ لوگ مقامی سوسائٹی سے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے سامنے دو سیاح (ایک مرد، ایک عورت) سنٹر میں آئے۔ مگر وہاں ان لوگوں کو دینے کے لیے  کوئی اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا۔ چناں چہ انھیں گیٹ ہی سے رخصت کر دیا گیا۔ سنٹر کے مدیر نے شکایت کی کہ ہم کو مالٹاکی موجودہ کا نفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔

 ہم ابھی سنٹر میں تھے کہ ظہر کا وقت ہوگیا۔ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اذان دی گئی۔ فلسطین کے ایک سفید ریش بزرگ اپنے کمرے سے نکلے۔ معلوم ہوا کہ وہ یہاں کے امام ہیں۔ امام سمیت سنٹر کے غالباًتین افراد جماعت میں شریک ہوئے۔ سنٹر کے یہی چند افراد اس مسجد کے نمازی ہیں۔ سنٹر کے مدیر نے گفتگو کے دوران ہنستے ہوئے کہا :نحن نؤذن في مالطا (ہم مالٹا میں اذان دے رہے ہیں)

عربوں میں یہ مثل مشہور ہے کہ فلان يؤذن في مالطا یا  فلان كمن يؤذن في مالطا۔ اس مثل کا پس منظر یہ ہے کہ صلیبی جنگوں سے پہلے مالٹا میں مسلمان بڑی تعداد میں تھے۔ مگر صلیبی جنگوں کے دوران جب صلیبیوں نے مالٹا کو اپنا فوجی مرکز بنانا چاہا تو مسلمانوں کو یہاں سے ایک ایک کر کے نکال دیا۔ اس کے بعد مالٹا میں ایک بھی مسلمان باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد یہ مثل بنی کہ فلاں شخص تو مالٹا میں اذان دے رہا ہے۔ یعنی ایسی جگہ لوگوں کو پکار رہا ہے یہاں کوئی اس کی پکار کا جواب دینے والا نہیں۔

ماضی اور حال کا یہ فرق بے حد عجیب ہے۔ عقبہ بن نافع تابعی (۶۸۳ - ۶۲۱ ء) افریقہ کو فتح کرتے ہوئے اپنی آخر عمر میں افریقہ کے ساحل تک پہنچ گئے جہاں اٹلانٹک کا وسیع سمندران کے سامنے موجیں مار رہا تھا۔ انھوں نے سمندر کے ساحل پر کھڑے ہو کر کہا : يارب لولا هذ البحر لمضيت في البلادحتى لا يعبد أحد دونك۔ اس کا حوالہ  نہیں ملا يا رب ‌لولا ‌هذا ‌البحر لمضيت مجاهدًا في سبيلك. ولو كنت أعلم بعده أرضًا وناسًا لخضته إليهم۔(موجز التاريخ الإسلامي،ص 151)

فَقَالَ: يَا رَبِّ ‌لَوْلَا ‌هَذَا ‌الْبَحْرُ لَمَضَيْتُ فِي الْبِلَادِ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِكَ۔ (الكامل في التاريخ،ج3ص 206)

اے میرے رب، اگر یہ سمندر حائل نہ ہوتا تو،میں چل کر ملکوں میں پہنچ جاتا یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔

یہ دور اول کے مسلمانوں کے جذبات تھے۔ وہ غیر عبادت گزار کو عبادت گزار بنانے کے لیے  تڑپتے تھے۔ اب ایک ہزار سال بعد جب اللہ نے راستے کھول دیے اور سفروں کو آسان کر دیا تو موجودہ مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاں کوئی عبادت گزار نہ ہو وہاں آخر اذان دینے کی کیاضرورت۔

۸ اکتوبر کی سہ پہر کو میڈیٹر ینین کا نفرنس سنٹر کے وسیع ہال میں کانفرنس کا افتتاح ہوا وزیر اعظم اٹلی، وزیر اعظم مالٹا، اور دوسرے لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ ایک مقرر نے اپنی تقریر میں کہا کہ مذہب کا نیا نام امن ہے:

The new name of religion is peace

"امن "بذات خود تومذہب کا قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہے کہ آج انسان ایک ایسے مذہب کی تلاش میں ہے جس کی تعلیمات پر امن زندگی کی طرف لے جانے والی ہوں۔

 یہ ایک بے حد اہم بات ہے۔ پچھلے تلوار کے زمانے میں جنگ کا تعلق صرف فوجی میدان سے ہوتا تھا۔ مگر اب جدید ہتھیاروں کے ظہور میں آنے کے بعد یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ جنگ کے اثرات صرف میدان جنگ تک محدود ر ہیں۔ آج جنگ کے معنی پوری انسانیت کی تباہی کے ہیں۔

 ایسی حالت میں جو لوگ مسلح جدوجہد کے ذریعہ اسلامی انقلاب لانے کی بات کرتےہیں وہ بیک وقت دو نادانی کے شکار ہیں۔ وہ جدید انسان کو تشدد کا مذہب دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ آج کا انسان امن کے سوا کسی اور مذہب کو ماننے کے لیے  تیار نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر بالفرض یہ حضرات وہ فوجی طاقت حاصل کر سکیں جس کے ذریعہ وہ موجودہ عالمی طاقتوں کو زیر کر کے زمین پر اسلامی اقتدار کا جھنڈا لہرائیں تو یہ ایک ایسی زمین ہو گی جہاں ان کے کا ر نامے کی داد دینے کے لیے  کوئی انسان موجود نہ ہو گا۔ حتی کہ شاید وہ خود بھی نہ ہوں گے کہ اپنی انوکھی فتح ِاسلام کی تقریبِ مسرت منعقد کر سکیں۔

انٹرنیشنل کانفرنسوں کے عام رواج کے مطابق، یہاں بھی "ہیڈ فون" کا انتظام تھا۔ بولنے والا اپنی زبان (مثلاً فرانسیسی یا اطالوی) میں بولتا تھا۔ اور سننے والا آلہ ٔسماعت کے ذریعہ اس کی اپنی زبان (مثلاً انگریزی یا عربی) میں سنتا تھا۔ اس عمل کے دوران ایک بار مجھے خیال آیا کہ متکلم کی بات کو براہ راست طور پر سمجھنے کے لیے  ضروری ہے کہ متکلم کی زبان کو سامع بھی سمجھتا ہو۔ متکلم اور سامع دونوں کی زبان ایک نہ ہو تو کلام موجود ہوگا مگر سماعت وہاں پائی نہ جائے گی۔

پھر میں نے سوچا کہ یہ سادہ طور پر صرف زبان کا معاملہ نہیں ہے بلکہ طرزِفکر کا معاملہ بھی ہے۔اگر متکلم کا طرزِ فکر ایک ہو اور سامع کا طرزِ فکردو سرا ہو تو مشترک زبان کے باوجود دونوں ایک دوسرےکی بات سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ مثلاً ایک شخص علمی تنقید کرے گا۔ مگرسننے والا اپنے مخصوص ذہنی سانچے کی بنا پر سمجھے گا کہ وہ شخصی تنقیص کررہا ہے۔وغیرہ مطبوعہ پروگرام کے مطابق، مالٹا کی کانفرنس میں مجھے تین بار عملی شرکت کا موقع ملا۔ ۸ اکتوبر کے اجتماع میں چیئر مین کی حیثیت سے۔ اس موقع پر میں نے کوئی باضابطہ تقریر نہیں کی۔ ابتداء میں میں نے چیئرمین کی حیثیت سے افتتاحی کلمات کہے۔ اس کے بعد دوسرے حضرات نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ آخر میں میرے اختتامی کلمات پر جلسہ ختم ہوا۔

۹اکتوبر کو صبح کی نشست خاص طور پر میری دلچسپی کی تھی۔ اس کا موضوع تھا اسلام اور عالمی چیلنج  (Islam and the challenges of the world)اس موضوع پر میں نے اپنا انگریزی مقالہ پیش کیا۔ یہ مقالہ ان شاءاللہ انگریزی الرسالہ میں شائع کر دیا جائے گا۔ ۹ اکتوبر کو آخری نشست میں لوگوں کے مقالات پر تبصرہ میرے ذمہ تھا۔ میں نے دوران کا رروائی اپنا دو صفحے کا تبصرہ انگریزی میں لکھا اور اس کو آخر میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

 میرے مذکورہ مقالے کے سلسلے میں ایک عجیب بات پیش آئی۔ اس سلسلے میں میں نے اپنی یادداشت کی ڈائری میں جو الفاظ لکھے تھے وہ یہاں نقل کیے جاتے ہیں :

 ۹اکتوبر کو دوبارہ میڈیٹرینین کا نفرنس سنٹر میں اجتماعات ہوئے۔ مختلف لوگوں نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔ یہاں ۸۰ ملکوں کے لوگ آئے ہیں۔ اور ہر بڑے مذہب کی نمائندگی کر رہےہیں۔ چناں چہ ہر ایک اپنے اپنے خیالات پیش کر رہا ہے۔

آج میری تقریر کا موضوع تھا: اسلام اور جدید عالمی چیلنج۔ میں نے اس موقع کے لیے  ایک مقالہ تیار کر کے پیشگی طور پر دہلی سے بھیج دیا تھا۔ کانفرنس کے منتظمین نے اس کی کا پیاں بھی تیار کر لی تھیں۔ مگر مالٹاآنے کے بعد شرکاء کا نفرنس سے جو باتیں ہوئیں اور لوگوں کے ذہن کا جو اندازہ ہوا، اس کے بعد میں نے چاہا کہ نئے پہلو سے میں اپنی بات یہاں پیش کروں۔

یہ ایک مشکل مسئلہ تھا۔ کیوں کہ بہت کم وقت میں دوبارہ مجھے ایک نیا مقالہ تیار کرنا تھا۔۸ اکتوبر کی شام کو اس کے بارے میں سوچتے ہوئے لیٹا اور سو گیا۔ رات کو حسب معمول ساڑھے تین بجے میری نیند کھل گئی۔ میں بستر سے اٹھا۔ وضو کر کے ہوٹل کے کمرہ میں دورکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد اپنی نئی تقریر لکھنے کے لیے  میز پر بیٹھ گیا۔

آج صبح ۱۱بجے کی نشست میں مجھے یہ مقالہ پیش کرنا تھا۔ میں نے تیزی سے اپنے خیالات جمع کیے اور ان کو کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔ درمیان میں صرف فجر کی نماز کے لیے  ایک بار اٹھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سورج نکلتے نکلتے میرا مقالہ تیار ہو چکا تھا۔

اس کے بعد کمرہ کے ٹیلیفون کے ذریعہ کا نفرنس کے منتظمین سے رابطہ قائم کیا۔ انہیں بتا یا کہ میں نے اپنا مقالہ بدل دیا ہے۔ اور اب میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے نئے مسودہ کو ٹائپ کرانا ہے۔ انھوں نے مقالہ بدلنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ فورا ًہی انھوں نے اس کو حاصل کر کے ٹائپسٹ کے حوالے کر دیا۔ ناشتے  سے فارغ ہونے کے بعد ٹائپ کیا ہوا مقالہ میرے ہاتھ میں موجود تھا۔کانفرنس میں میں نے یہی دوسرا مقالہ پیش کیا۔

 قاہرہ کے مفتی شیخ طنطاوی نے عربی میں تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے، اسلام میں جارحانہ جنگ نہیں––––الأصل في العلاقات السلام، القتال لا يكون إلا للمقاتلين، لا يرجع المرء إلى الحرب إلا اذا كان مضطراً۔ وغيره یروشلم سے بھی ایک ربّی آئے تھے۔ انھوں نے یہودی مذہب کی ترجمانی کی۔ انھوں نے اپنی انگریزی تقریر میں کہا کہ فلسطین کی مقدس سرزمین لوگوں کے دلوں میں امن کا جذبہ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے:

The Holy Land is a source of inspiration for peace.

ربی کی تقریر سن کر مجھے خیال آیا کہ امتحان کی اس دنیا میں شاید الفاظ سب سے بڑافتنہ ہیں۔ یہاں ہر بات خوبصورت لفظوں میں ڈھل جاتی ہے، خواہ باعتبار حقیقت وہ کتنی ہی بے اصل کیوں نہ ہو۔

۸ اکتوبر کو شام کا کھانا صدر مالٹا کے پیلس میں تھا۔ یہ ایک بہت بڑا محل ہے جس کو غالباً انگریزوں نے بنایا تھا۔ ہم لوگ ایک بڑے ہال میں پہنچائے گئے وہاں اعلیٰ تواضع کا انتظام تھا۔ کچھ دیر میں صدر مالٹا مسٹر تابون (Censu Tabone) ہال میں آئے اور لوگوں سے ملنے لگے۔ میں ہال کے کنارے کچھ لوگوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا، ایک صاحب نے کہا کہ آپ بھی چلیں، پریسیڈ نٹ سے مصافحہ کر لیں۔ مگر میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ کچھ دیر کے بعد خود پریسیڈنٹ صاحب میری طرف آئے اور سلام اور مصافحہ کیا۔ وہ ۱۹۸۹ سے مالٹا کے صدر ہیں۔

مذکورہ صدر میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ یہ صرف ان ملکوں کے عام رواج کی بات ہے کہ وہ اس طرح سادہ طور پر ہر ایک سے ملاقات کر رہے تھے۔ اسی قسم کا تجربہ مجھےمالٹا ایئر پورٹ پر بھی ہوا تھا۔ ہم لوگ ایئر پورٹ کے جس کمرے میں بٹھائے گئے، وہاں پہلے سے مالٹا کے ایک وزیر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم کو دیکھ کر وہ بلا تکلف فوراً اٹھ گئے اور کہا کہ آپ لوگ یہاں اطمینان سے بیٹھیں، میں دوسرے کمرہ میں چلا جاتا ہوں۔

 کانفرنس کی تنظیمی ہیئت کے صدر پروفیسر ریکار ڈیAndrea Ricardi))ہیں۔وہ اطالوی اور فرانسیسی زبانیں جانتے ہیں۔ ان سے ترجمان کی مدد سے گفتگو ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کے مشن سے واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ مین آف ڈائیلاگ ہیں۔

 اس جملے میں در اصل یہ احساس چھپا ہوا تھا کہ مسلم علماء اکثر اس مزاج کے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عالم سے میری گفتگو ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ مسیحیوں کے ساتھ حوار میں داخل ہونا ہمارے لیے  غیر مفید ہے۔ کیوں کہ اس حوار میں مسلمان کمزور فریق ہوتے ہیں جن کو قوی فریق استعمال کرتا ہے (المسلمون هم الطرف الضعيف يستخدمهم الطرف القوى)

 اس کے مقابلے میں مسیحی حضرات کا انداز زیادہ حوصلہ مندانہ تھا۔ مثلاً ایک عرب عالم نے ان عصری تحدیات (چیلنجز) کا ذکر کیا جو آج مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ اس پر ایک مسیحی عالم نے کہا کہ یہ تحدیات صرف اسلامی تحدیات نہیں ہیں بلکہ وہ تمام ادیان کو در پیش ہیں(هذه التحديات لیست تحدیات إسلامية فقط بل هي تحديات تواجهھا كل الديانات) ایک مسیحی مقرر نے کہا کہ حضارت اسلامی کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مسیحیوں سے بھی ہے۔ حضارت اسلامی کو فروغ دینے میں مسیحی بھی مشترک ہیں۔ انھوں نے بھی اس کے لیے  کام کیا ہے۔ البتہ دین ہمارا دوسرا ہے اور مسلمانوں کا دوسرا۔یوحنا ابراہیم (مسیحی عالم)نے خالص عربی لہجہ میں تقریرکرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔ یہ تقریر ۹ اکتوبر کو کانفرنس میں ہوئی۔

 کا نفرنس میں مسیحی حضرات ہم لوگوں کو السلام علیکم کے لفظ سے خطاب کرتے تھے اور ان شاء اللہ وغیرہ الفاظ بے تکلف بولتے تھے۔ روم کے ایک مسیحی عالم سے میں نے پوچھا کہ ان شاء اللہ کو اطالوی زبان میں کس طرح کہا جائے گا۔ انھوں نے فوراً ایک کاغذ پر لکھ کر دیا : SE DIO VUOLE

۱۰اکتو برکو کانفرنس کا آخری دن تھا۔ صبح کے سشن میں مختلف لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ ایک مقرر نے کہا کہ موجودہ زمانے میں ہر طرف تبدیلی کی بات کی جارہی ہے مگر عملاً تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص دنیا کو بدلنے کی بات کر رہا ہے، کوئی بھی شخص اپنے آپ کو بدلنے کے لیے  نہیں سوچتا :

Everyone is thinking to change the world; no one is thinking to change himself.

حیفہ (اسرائیل) کے چیف ربائی نے اپنی تقریر میں امن کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا۔ اس نے کہا کہ امن بھی خدا کا ایک نام ہے :

Peace is one of the names of God.

مگر اسی کے ساتھ جب اسرائیل کا ذکر آیا تو اس نے یہ بھی کہا کہ اس سے اس کی مراد صرف موجودہ اسرائیل نہیں ہے بلکہ وہ پورا علاقہ ہے جس کا خدا نے اسرائیل سے اس کی مقدس کتابوں کے مطابق وعدہ کیا ہے (Not the only Israel but all the promised land)   دونوں باتوں میں واضح تضاد ہے۔ مگر جب آدمی کے اندر احتساب خویش کا مادہ نہ ہو تو اس کو اپنے نقائص کی خبر نہیں ہوتی۔

 کا نفرنس میں جو یہودی علماء اورمسیحی علماء آئے تھے، ان کو میں نے دیکھا کہ وہ بہت اچھی حالت میں ہیں۔ ان کی قوم نے ان کو نہایت اعلیٰ سہولتیں دے رکھی ہیں۔ ان کو اپنی قوم کے اندرعزت بھی حاصل ہے اور ہر قسم کے مادی وسائل بھی۔

میں نے سوچا کہ مذہبی اعتبار سے ہمارے یہاں مسجد کے امام اور مدرسہ کے مولوی کا جو درجہ ہے وہی یہودیوں کے یہاں ربّی کا اور مسیحیوں کے یہاں پادری کا درجہ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دوسروں کے یہاں ان کی مذہبی شخصیت کو جو مقام حاصل ہوتا ہے وہ مقام ہمارے یہاں کی مذہبی شخصیت کو حاصل نہیں۔

اس کی ایک وجہ کا نفرنس کے تجربہ میں سمجھ میں آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہودی اور مسیحی علماء نہایت اعلیٰ سطح پر اپنے مذہب کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ عالمی زبانوں میں اپنے مذہب کی وکالت اس طرح کر رہے ہیں جس سے ان کے ہم قوم خوش ہو جائیں۔

یہی خصوصیت اگر مسجد کے امام اور مدرسہ کے مولوی کے اندر آجائے تو وہ بھی مسلمانوں کے اندر اونچا درجہ حاصل کر لے گا۔ مثلاً یہ لوگ اگر انگریزی سیکھ لیں اور مشترک اجتماعات میں انگریزی زبان میں اسلام کی اعلیٰ نمائندگی کرنے کے قابل ہو جائیں تو قوم کے اندر انھیں بھی اعلیٰ رتبہ حاصل ہو جائے گا۔

شام کی آخری کا روائی ساڑھے تین بجے شروع ہوئی۔ کانفرنس کے منتظمین اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہی پوری کا نفرنس کا اصل خلاصہ ہوتا ہے۔

 پہلے کار کے ذریعہ ہم کو ایک مقام پر پہنچایاگیا۔ یہاں قدیم انداز کا ایک بہت بڑا گیٹ تھا۔ اس پر لکھا ہو ا تھا : باب البلد (Biebil-Belt) گیٹ کے دوسری طرف سیدھی لمبی سڑک تھی۔ اس سڑک سے ہم کو گزرنا تھا۔ تقریباً ایک کیلو میٹر تک سڑک کے دونوں طرف بے شمار عورت اور مرد کھڑے ہوئے تھے۔ گیٹ پر پہنچتے ہی لوگوں نے خوش آمدید کے انداز میں تالیاں بجانی شروع کیں اور سارے راستے میں مسلسل بجاتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ میری زبان سے نکلا: کیسےعجیب خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کا استقبال جنت کے دروازہ پر کیا جائے۔

 پروگرام کے مطابق ہر مذہب کے لوگوں کو مخصوص مقامات پر پہنچ کر اپنے اپنے انداز میں عبادت اور دعا کر نا تھا۔ چناں چہ مسیحی حضرات ایک چرچ میں داخل ہو گئے۔ ہم مسلمان تقریباً دس کی تعداد میں تھے۔ آگے پہنچے تو ایک بہت بڑے محل نمامکان کے صحن میں قالین بچھے ہوئے تھے۔ ہم لوگ یہاں بٹھا دیے گئے۔

یہاں نصیحت اور تذکیر کے انداز میں باتیں ہوئیں۔ سوڈان کے ایک عالم نے کہا کہ یہاں ہم کو اذان دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ صوفیاءنے اذان کے الفاظ کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ اللہ نے اس مقام پر تجلی فرمائی ہے اس لیے  تم لوگ یہاں آؤ (إن الله سبحانه وتعالى تجلّى في هذ المكان فهلموا إلیه) اس کے بعد انھوں نے کھڑے ہو کر اپنے مخصوص لہجہ میں اذان دی۔ تقریباً یقینی ہے کہ اس محل میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ یہاں اذان کی آواز گونجی۔

یہاں ہم لوگوں نے شیخ طنطاوی کی امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد سوال و جواب کے انداز میں دیر تک مجلس رہی۔ اس میں زیادہ تر دو آدمیوں نے حصہ لیا۔ ایک ایرانی عالم سوال کرتے رہے اور شیخ طنطاوی سنجیدہ علمی انداز میں ان کا جواب دیتے رہے۔ زیادہ تر سوالات جہاد کے مسئلے سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ طنطاوی کا نظریہ تھا کہ جہاد بمعنی قتال صرف دفاع کے لیے  ہے۔ جب کہ ایرانی عالم کو اس سے اختلاف تھا۔

شروع سے آخر تک اس نشست میں تقریباً تین گھنٹے لگے۔ اس پوری مدت میں مسیحی حضرات بڑی تعداد میں ہمارے چاروں طرف ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔ ہماری مجلس کی ساری کارروائی عربی زبان میں تھی۔ اس لیے  وہ اس کو سمجھ نہیں سکتے تھے۔ تاہم مذہبی احترام کے جذبے کے تحت وہ مسلسل خاموش کھڑے رہے۔ اسی طرح کھڑے ہو کر انھوں نے ہماری باجماعت نماز کو بھی دیکھا۔

 یہ مسیحی حضرات جس انہماک اور عقیدت کے ساتھ ہماری نماز کو دیکھ رہے تھے اس کے بارے میں سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ نماز با جماعت اپنی ذات میں ایک مکمل تبلیغ ہے۔ نمازی کے لیے  وہ عبادت ہے اور دیکھنے والوں کے لیے  دعوت۔

قرآن میں ہے کہ جن وانس کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے  پیدا کیا گیا ہے (الذاریات: ۵۶ ) عبادت کی سب سے اعلیٰ اور کامل صورت نماز ہے۔ غور کیجیے تو انسان کی نفسیات اور اس کا جسمانی ڈھانچہ اس طرح ہے گویا وہ نماز پڑھنے ہی کے لیے  بنایا گیا ہو۔ ایسی حالت میں جب ایک غیر مسلم مسلمانوں کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتا ہے، خاص طور پر جماعت کی نماز، تو اس کا پورا وجود خاموش طور پر کہہ اٹھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کو میری فطرت مانگ رہی تھی۔ وہ نماز کو خود اپنی اندرونی طلب کا جواب سمجھنے لگتا ہے۔ اس طرح نماز کو دیکھنا اس کے لیے  ایک عملی تبلیغ بن جاتا ہے۔

 تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے لوگ نماز کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ ان کا وجود پہلے سے نماز جیسی ایک چیز کا طالب تھا۔ جیسے کوئی پیاسا آدمی پانی کا طالب ہو۔ جب انھوں نے نماز کو دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ ان کے اپنے ہی  اندرونی تقاضے کا خارجی مظاہرہ ہے۔ اس احساس کے تحت انھوں نے بڑھ کر اس کو اختیار کر لیا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom