معرفتِ قرآن
خلیفۂ دوم حضرت عمرفاروق نے ایک روز حضرت عبداللہ بن عباس کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ یہ امت کیسےاختلاف میں پڑ جائے گی، حالاں کہ اس کی کتاب ایک ہے، اس کا نبی ایک ہے، اس کا قبلہ ایک ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا کہ اے امیر المومنین، قرآن ہمارے اوپر اتارا گیا ہم نے اس کو پڑھا اور یہ جانا کہ وہ کس چیز کے بارے میں اترا ہے۔ مگر ہمارے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو پڑھیں گے لیکن یہ نہ جانیں گے کہ وہ کس چیز کے بارےمیں اترا ہے۔ پس ہر گروہ کی قرآن کے بارے میں ایک رائے ہو جائے گی۔ اور جب ہر گروہ کی الگ رائے ہو جائے گی تو وہ اختلاف کریں گے۔ اور جب اختلاف کریں گے تو آپس میں قتال کریں گے۔ (حیا ۃ الصحابہ، الجزء الثالث، صفحہ ۲۱۸)
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے۔ ۲۲ نومبر ۱۹۸۹ کو ہندستان کی نویں لوک سبھا کا الکشن ہوا۔ اس موقع پر الکشنی مہم کے تحت جو کچھ کیا گیا، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ہر طرف اس مضمون کے پوسٹر لگائے گئے کہ" ہاتھ سے ہاتھ ملائیے" اُس وقت پورے ماحول میں جو فضا بنی ہوئی تھی، اس میں ہر شخص نے فوراً سمجھ لیا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کانگریس کو ووٹ دو، جس کا چناؤ نشان ہاتھ ہے۔
لیکن یہی پوسٹر ایک ہزار برس بعد کچھ لوگوں کو اچانک مل جائے تو اس کا سمجھنا ان کے لیے انتہائی دشوار ہو گا۔ کوئی شخص کہے گا کہ اس کا مطلب مصافحہ کرنا ہے۔ کوئی کہے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دست بدست جنگ کرو۔ کوئی اس کا مطلب یہ بتائے گا کہ سفر میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رہو تاکہ کوئی بچھڑنے نہ پائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے نزولِ قر آن کے پس منظر کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔ یہ پس منظر سیرتِ رسول کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔
جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ کی رضا کا طالب ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذہن کو خالی کر کے قرآن، حدیث، سیرت اور صحابہ کے حالات کو پڑھے اور اسی کے ساتھ ہدایت کی دعا بھی کرتا رہے۔ ان شاء اللہ وہ سچائی کے راستے کو پالے گا۔