خدا کا وجود
انسان جب رحمِ مادر (womb) کے خول میں ہوتا ہے، تو اس کو اُس وقت خول کے باہر کی دنیا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا۔ اِس خول کے باہر ایک پوری دنیا موجود ہوتی ہے، لیکن بچے کو اِس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ خود انسان کا بھی ہے۔ انسان کی تمام معلومات زمان و مکان (time and space) کے اندر تک محدود ہوتی ہیں۔ وہ زمان ومکان کے باہر کی حقیقتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا۔
برٹش فلسفی جان اسٹوارٹ مِل (وفات: 1873) جب نوجوانی کی عمر میں تھا، اُس وقت اس کے باپ جیمس مل (وفات: 1836) نے اُس سے کہا کہ خدا کا عقیدہ ایک غیر عقلی عقیدہ ہے۔ کیوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ خدا نے انسان کو پیدا کیا، تو سوال یہ ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا:
If God created man, who created God.
یہ بات جان اسٹوارٹ مل نے اپنی آٹو بائگریفی میں لکھی۔ اِس کے بعد اِس بات کو برٹرنڈرسل (وفات: 1970) اور جولین ہکسلے (وفات: 1975) جیسے فلاسفہ دہرانے لگے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ جیمس مل کے تقریباً سو سال بعد 1916 میں البرٹ آئن اسٹائن (وفات: 1955) نے نظریۂ اضافیت (theory of relativity) پیش کیا۔ اِس نظریے کے تحت آئن اسٹائن نے دکھایا کہ اِس دنیا میں انسان کا ہر علم اضافی(relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real)۔آئن اسٹائن نے ثابت کیا کہ انسان کے پاس کوئی مطلق فریم آف ریفرنس موجود نہیں:
No absolute frame of reference exists.
جیمس مل کے زمانے میں انسان کا علم ایک سائنٹفک خول (scientific womb) کے اندر محدود تھا۔ آئن اسٹائن نے سوسال بعد انسان کو اِس خول کی موجودگی کی خبر دی۔ ایسی حالت میں اب انسان کے لیے عقلی رویہ صرف یہ ہے کہ وہ بالاتر حقائق کے بارے میں اپنی علمی محدودیت (limitations) کا اعتراف کرے، نہ کہ وہ اُن کے بارے میں یقین کے ساتھ علمی بیانات دینے لگے۔