یہ بھی جھوٹ ہے
ایک صاحب کو میں نے دیکھا کہ ان کا وزن کافی بڑھا ہوا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ شاید کھانے پینے میں احتیاط نہیں کرتے۔ اِس لیے آپ کا وزن بڑھ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، میں تو روٹی اور سبزی اور روٹی اور دال جیسا سادہ کھانا کھاتا ہوں۔ لیکن جب میں نے اسکروٹنی (scrutiny) کی، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر میں تو سادہ کھانا کھاتے ہیں، لیکن جب وہ باہر نکلتے ہیں تو اکثر وہ جنک فوڈ(junk food) کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسا تقریباً روزانہ ہوتاہے۔
یہ بھی ایک جھوٹ ہے اور اِس قسم کے جھوٹ میں اکثر لوگ مبتلا رہتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو بالکل برہنہ جھوٹ بولیں، لیکن مذکورہ قسم کا جھوٹ تقریباً تمام لوگ بولتے ہیں، حالاں کہ کذبِ جلی اگر گناہ ہے، تو کذبِ خفی بھی بلاشبہہ ایک گناہ ہے۔ د ونوں میں درجہ کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ یہی وہ نفسیات ہے جس کی بنا پر لوگ کذبِ خفی کی برائی میں مبتلا رہتے ہیں، وہ صاف انداز میں بات نہیں کرتے۔ وہ ٹوسٹ(twist) کرکے بولتے ہیں۔ کسی سوال کا جواب وہ اِس انداز میں دیتے ہیں کہ ان کی کم زوری چھپی رہے، وہ لوگوں کے علم میں نہ آئے۔
کذبِ خفی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اُس سے آدمی کے اندر کم زور شخصیت (weak personality) بنتی ہے۔ کم زور شخصیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہی چیز ہے جس کو مذہب کی زبان میں منافقت کہاجاتاہے، اور منافقت بلا شبہہ انسان کے لیے ایک سخت تباہ کن چیز ہے۔
آدمی کو صرف یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کھلے کھلے حرام سے بچائے۔ اِس نوعیت کا پرہیز تو ایک حیوان بھی کرتاہے۔ انسان کو اِس سے اوپر اٹھنا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ نہ صرف حرام چیزوں سے بچے، بلکہ وہ ایسی چیزوں سے بھی مکمل پرہیز کرے جس سے اس کے اندر کم زور شخصیت کی پرورش ہوتی ہو۔