پہلی واپسی،دوسری واپسی
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود (بنی اسرائیل) کے لیے پیشگی طورپر دو وعدہ (appointed time) مقرر فرمایا تھا (الإسراء: 4)۔ حضرت ابراہیم کے ذریعے نافذ ہونے والے خدائی منصوبے کے مطابق، یہود کا وطن ارضِ فلسطین قرار پایا۔ اِس کے بعد ان کی لمبی تاریخ کے دوران یہ مقدر تھا کہ اُن کے ساتھ دوبار یہ واقعہ پیش آئے گا کہ وہ اپنے وطن فلسطین سے نکل کر بیرونی علاقوں میں منتشر ہوجائیں گے اور پھر اپنے وطن فلسطین کی طرف دوبارہ واپس آئیں گے۔ گویا کہ یہود کی نسل دوبار ڈائس پورا (diaspora) کی صورت اختیار کرے گی اور پھر وہ اپنے وطن کی طرف واپس آئے گی۔
حضرت یوسف کے زمانے میں بنی اسرائیل، کنعان (فلسطین) سے ہجرت کرکے مصر گئے۔ اُس وقت اُن کی تعداد 70 تھی (پیدائش: 46: 27)۔ بائبل کے بیان کے مطابق، اُن کی نسلیں 430 سال تک مصر میں آباد رہیں (خروج: 12:40)۔ اِس کے بعد حضرت موسیٰ کے زمانے میں مصر سے نکل کر وہ لوگ وادی ٔسینا کے علاقے میں آئے۔ اُس وقت (عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر) اُن کے مردوں کی تعداد 6 لاکھ ہوچکی تھی (خروج: 12: 37)۔ اس کے بعد وہ 1400 قبل مسیح میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ یوشع بن نون (Joshua) کی قیادت میں اپنے وطن فلسطین میں داخل ہوئے۔ یہ یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کے ارضِ فلسطین میں داخلے کا پہلا ’’وعدہ‘‘ تھا۔ یہ داخلہ خدا کے حکم کے مطابق ہوا۔ اِس کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں آیا ہے: یا قوم ادخلوا الأرض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدۃ: 21) یعنی موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہوجاؤ، جس کو خدا نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے ساتھ دوسرا وعدہ کب پورا ہوا، یا کب پورا ہوگا۔ اِس معاملے میں قرآن کی ایک آیت سے رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 17 میں یہود کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: فإذا جاء وعد الآخرۃ جئنا بکم لفیفًا (الإسراء: 104) یعنی جب دوسرے وعدہ کا وقت آئے گا تو ہم تم کو ہر جگہ سے سمیٹ کر (فلسطین میں) لے آئیں گے۔
بنی اسرائیل (یہود) کے ساتھ یہ دوسرا وعدہ کب پورا ہوا، جب کہ وہ فلسطین میں دوبارہ واپس آئے۔ اِس دوسرے وعدہ (وعد الآخرۃ) سے مراد غالباً وہی واقعہ ہے جو بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پیش آیا۔ بال فور ڈکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت 1948 میں یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کی واپسی اپنے وطن فلسطین کی طرف شروع ہوئی اور آخر کار فلسطین کے نصف حصے میں ریاستِ اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
پہلی واپسی کا مقصد یہ تھا کہ یہود کو دوبارہ اُن کابھولا ہوا خدائی سبق یاد دلایا جائے۔ اِس طرح وہ دوبارہ فلسطین میں اِس لیے اکھٹا کیے گئے ہیں کہ اُنھیں خدا کا پیغامِ حق پہنچایا جائے، تاکہ اُن میں جو سعید روحیں ہیں، وہ حق کو قبول کرکے خدا کی ابدی رحمت کی مستحق بنیں۔ اور جو لوگ بھٹکے ہوئے ہیں، اُن کو ایکسپوز (expose) کیا جاسکے۔ حدیث میں نزولِ مسیح کے زمانے میں جس قتل یہود کا ذکر ہے، اُس سے مراد جسمانی قتل نہیں، بلکہ اس سے مراد یہودکو ایکسپوز کرنا ہے، تاکہ قیامت سے پہلے یہ واضح ہوجائے کہ وہ حق پر قائم تھے، یا وہ حق کو چھوڑ کر حق سے دو رچلے گئے تھے۔
اِن واقعات کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہود کا اجتماع جو 1948میں اسرائیل کے اندر ہوا، وہ خدائی منصوبے کے عین مطابق تھا۔ اب یہ مطلوب تھا کہ امتِ مسلمہ اُن کو مدعو کے روپ میں دیکھے اور ناصحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اُنھیں حق کا پیغام پہنچائے۔ یہ یہود کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوگا۔ اِس کے بعد اگلا مرحلہ قیامت کا مرحلہ ہوگا۔ یہ مرحلہ خداوند ِ ذوالجلال کے سامنے حاضر ہونے کا مرحلہ ہوگا، یہود کے لیے اور امتِ مسلمہ کے لیے اور ساری دنیا کے لیے۔
عرب- اسرائیل ٹکراؤ جو 1948 میں شروع ہوا، اُس کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ 60 سال کے خونی تصادم کے باوجود اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، بلکہ عملاً وہ صرف کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا ہے۔ جہاد کے نام پر کی جانی والی اِس جنگ کا یہ معکوس نتیجہ کیوں برآمد ہوا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ جہاد اعداء اللہ کے خلاف ہوتا ہے۔ عرب -اسرائیل جنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی دشمن کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ وہ حقیقت (reality) کے خلاف جنگ ہے۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ حقیقت کے خلاف لڑکر کوئی بھی شخص یا گروہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
بائبل کے بیان کے مطابق، فلسطین یہود کے لیے ارضِ موعود (promised land) ہے (استثناء 8:1)۔ یہی بات قرآن میں اِس طرح کہی گئی ہے کہ فلسطین یہود کے لیے ارضِ مکتوب (assigned land) ہے (المائدۃ: 21)۔ اِس طرح بائبل اور قرآن دونوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اصل وطن کی طرف واپس جاکر وہاں آباد ہوں۔ پھر قرآن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہودی تاکینِ وطن دوبار بڑے پیمانے پر اپنے وطن کی طرف واپس ہوں گے۔ واپسی کا پہلا واقعہ حضرت موسی ٰ کے بعد یوشع بن نون کے زمانے میں ہوا۔
اِسی طرح قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربِ قیامت سے پہلے یہودی تارکینِ وطن دوسری بار مختلف ملکوں سے سمٹ کر فلسطین واپس آئیں گے۔ یہ واقعہ بطور پیشین گوئی قرآن کی سورہ نمبر 17 میں آیا ہے (الإسراء:104)۔ اِس آیت کی تشریح میں مفسر ابو الحسن الماوردی (وفات 1058 ء) نے تین اقوال نقل کیے ہیں۔ اُن میں سے ایک قول یہ ہے: وعد الآخرۃ: أی وعد الکرّۃ الآخرۃ فی تحویلہم إلی أرض الشام (تفسیر النکت والعیون) یعنی اِس آیت میں وعدۂ ثانی سے مراد یہودی تارکینِ وطن کی شام (فلسطین) کی جانب دوسری واپسی ہے۔
یہودی تارکینِ وطن کو دوبارہ فلسطین میں بسنے کا موقع دینا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اِس کا تقاضا تھا کہ یہودی، خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ان کی دیرینہ قومی آرزو کو پورا کیا۔ دوسری طرف، ان کے پڑوسی مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ یہود کو دعوتِ حق کا مخاطب بنائیں، وہ ان کوسچائی کا پیغام دیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں دونوں ہی گروہ ناکام ثابت ہوئے۔ نہ یہود نے خداوند ِ ذوالجلال کا شکر ادا کیا، اور نہ مسلمانوں نے اپنی دعوتی ذمے داری کو انجام دیا۔ اِس اعتبار سے دونوں کا کیس بالکل ایک ہے۔ چناں چہ دونوں ہی فریق خدا کی نصرت سے محروم رہ گئے، یہودبھی اور مسلمان بھی۔