تعمیر ِ دنیا، تعمیر ِ شخصیت
ایک آدمی ایک معاشی کام شروع کرتا ہے۔ اُس میں اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پیسے کی طاقت سے اس کے سب کام بننے لگتے ہیں۔ وہ اپنے لیے ایک گھر چاہتا ہے تو وہ ایک اچھا گھر بنا لیتا ہے۔ وہ اپنے لئے ایک سواری چاہتا ہے تو اس کو بازار سے ایک اچھی سواری مل جاتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم چاہتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ یہ مقصد بھی اس نے حاصل کرلیا۔ غرض، دنیوی اعتبار سے وہ پورے معنوں میں ایک کامیاب انسان بن جاتا ہے۔
یہ تجربہ آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ اِس دنیا میں پیسہ سب کچھ ہے۔ پیسہ کماؤ اور ہر چیز حاصل کرلو۔ اِسی مزاج کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا— اے زر، تو خدا نہیں۔ لیکن خدا کی قسم، تو عیب کو چھپانے والا ہے اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے:
اے زر، تو خدا نۂ ولیکن بہ خدا ستّارِ عیوب وقاضیُ الحاجاتی
دوسری طرف، وہ انسان ہے جو خدا سے ڈرتا ہے، جو خدا پرستی کی زندگی اختیار کرتا ہے، جو آخرت کو اپنی منزلِ مقصود بناتا ہے۔ ایسا شخص بھی ایک دنیا کی تعمیر کرتاہے۔ یہ خود اپنی شخصیت کی تعمیر ہے، جو انسان کے داخل میں ہوتی ہے۔وہ مادّی چیزوں کی طرح لوگوں کو دکھا ئی نہیں دیتی، لیکن بلاشبہہ دنیا کی تعمیر سے زیادہ بڑا کام اپنی شخصیت کی تعمیرہے۔
دنیا کی تعمیر، موت سے پہلے کی زندگی میں ہوتی ہے اور موت کے وقت وہ اِس دنیا میں رہ جاتی ہے۔ موت کے وقت جب آدمی اپنی زندگی کا اگلا سفر کرتا ہے تو وہ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اپنے ساتھ نہیں لے جاتا۔اِس کے برعکس، جو آدمی اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، وہ ابدی طورپر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ ایسا آدمی جب مرتا ہے تو وہ اپنی اِس شخصیت کے ساتھ اگلے دورِ حیات میں داخل ہوتاہے۔ یہ ربانی شخصیت اس کے لیے جنت میں داخلے کا اجازت نامہ ہوتی ہے۔ اپنی اِس شخصیت کی بنا پر وہ جنت میں اپنے لئے ابدی مقام حاصل کرلیتا ہے، اور اِس سے بڑی کوئی کامیابی کسی انسان کے لیے نہیں۔