ذہین آدمی کا فتنہ
ذہانت ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ ذہانت ایک عظیم فتنہ بھی ہے۔ جو آدمی زیادہ ذہین ہو، اُس کے اندر بہت جلد اپنے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، برتری کا احساس (superiority) پیدا ہوجاتا ہے۔ اِس احساسِ برتری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کا اعتراف نہیں کرپاتا۔ اِس بے اعترافی کی مختلف صورتیں ہیں۔
اِس بے اعترافی کی بنا پر بعض افراد کایہ حال ہوتا ہے کہ اُن سے کوئی بات کہی جائے تو فوراً وہ اس کے لیے اپنا کوئی ذاتی حوالہ ڈھنڈ لیں گے۔ وہ کہیں گے کہ میں نے بھی فلاں موقع پر یہ بات کہی تھی۔ کچھ افراد اپنے اِس مزاج کی بنا پر ایسا کرتے ہیں کہ جب اُن سے کوئی بات کہی جائے تو وہ فوراً اُس کو کاٹ دیں گے اور پھر اُسی بات کو خود اپنے لفظوں میں بیان کریں گے۔ اِسی طرح بعض افراد پوری بات کو نظر انداز کرکے ایک شوشہ نکال لیں گے، اور پھر وہ اِس شوشے پر اِس طرح تقریر کریں گے، جیسے کہ یہی شوشہ اصل ہے اور بقیہ باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک اور قسم اُن افراد کی ہے جن کے سامنے کچھ باتیں کہی جائیں تو وہ اُس کو مثبت ذہن کے ساتھ نہیں سنیں گے۔ اُن کا ذہن اِس تلاش میں رہے گا کہ مختلف باتوں میں سے وہ کوئی ایک بات ڈھونڈ لیں جس میں بظاہر کوئی کم زور پہلو موجود ہو، اور پھر اِسی ایک بات کو لے کر وہ بقیہ کہی ہوئی تمام باتوں کو رد کردیں گے۔
اِس مزاج کا یہ نقصان ذہین آدمی کے حصے میں آتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقا صرف محدود طورپر ہوتاہے، وسیع تر انداز میں اس کا ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔ جو چیزیں اُس کے لیے ذاتی انٹرسٹ کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً اپنا جاب (job) یا اپنے بچوں کا مستقبل، اس طرح کے معاملے میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسے معاملے میں اس کا ذہن اچھی طرح کام کرتا ہے۔ بقیہ معاملات میں وہ سنجیدہ نہیں ہوتا، اِس لیے بقیہ اعتبار سے اس کا ذہنی ارتقا بھی نہیں ہوتا۔ اِس طرح عملاً وہ ایک ذہین بے وقوف، یا بے وقوف ذہین بن کر رہ جاتا ہے۔