سجدۂ قربت

قرآن کی سورہ نمبر 96 میں ارشاد ہوا ہے: واسجد واقترب(العلق:19) یعنی سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أقرب ما یکون العبد من ربّہ وہو ساجد، فأکثروا الدعاء(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ) یعنی بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ سجدے میں ہوتا ہے، اِس لیے تم سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو۔ قربتِ خداوندی کا یہ معاملہ صرف شکلِ سجدہ پر نہیں ہے، بلکہ روحِ سجدہ پر ہے۔ ایک واقعہ اِس معاملے کی وضاحت کرتا ہے۔

بنگلور کا واقعہ ہے۔ ایک ہندو نوجوان کی بعض عادتوں سے اُس کا باپ سخت ناراض ہوگیا۔ اُس نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ ایک عرصے تک وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ آخر کار، اس کی ملاقات ڈاکٹراحمد سلطان (وفات: 1999) سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا باپ تم کو دوبارہ قبول کرلے تو اس کی صرف ایک صورت ہے۔ تم خاموشی سے اپنے گھر جاؤ، اوروہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ جب دروازہ کھلے اور تمھارا باپ تمھارے سامنے آئے تو تم فوراً ہی باپ کے پیروں پر گر پڑو، اور کہو کہ باپ، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ کو معاف کردے۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا۔ جب لڑکا روتے ہوئے اپنے باپ کہ پیروں پر گر پڑا تو باپ بھی رونے لگا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگالیا اور اس کو معاف کرکے دوبارہ اپنے گھر میں داخل کرلیا۔

سجدہ بلاتشبیہہ اِسی قسم کی ایک حالت ہے۔ سجدہ کوئی رسمی فعل نہیں۔ حقیقی سجدہ یہ ہے کہ ایک بندہ شدتِ احساس سے بے چین ہوجائے اور بے تابانہ طور پر وہ اپنا سر زمین پر رکھ دے۔ ایسا سجدہ گویا کہ اپنے رب کے قدموں میں سررکھنے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ ایسا سجدہ تسلیم ورضا کی آخری صورت ہے۔ جب کوئی بندہ اِس طرح اپنے آپ کو آخری حد تک خدا کے آگے سرینڈر (surrender) کردے تو خدا کی رحمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس کو معاف فرما کر اُسے اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom