قسمت ِ انسانی
ایک فرانسیسی مفکر ڈونوائے(Le Comte Donoy) کی ایک کتاب ہے جس کا نام قسمت ِ انسانی (Human Destiny) ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے انسان کے ماضی اور حال سے بحث کی ہے۔ لیکن کتاب کے قاری کو آخر میں کنفیوژن کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ اِس موضوع پر اور بھی بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھیں ہیں، لیکن یہ تمام کتابیں اپنے قاری کو کنفیوژن کے سوا کچھ اور نہیں دیتیں۔وہ آدمی کو کسی مثبت نتیجے تک پہنچانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
اِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں بہ یک وقت دو متضاد چیزیں پائی جاتی ہیں— جبر، اور اختیار۔ فلاسفہ یہ کرتے ہیں کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک کو مرکزی خیال بنا کر اس کے تحت، انسان کی پوری زندگی کی تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ عملاً ممکن نہیں۔ جب یہ لوگ جبر کے پہلو کو لے کر تشریح کرتے ہیں تو اختیار کا پہلو چھوٹ جاتا ہے۔ اور جب وہ اختیار کے پہلو کو لے کر تشریح کرنا چاہتے ہیں تو جبر کا پہلو چھوٹ جاتا ہے۔ اِس بنا پر اُن کی فکر میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ اور تضاد فکری کا لازمی نتیجہ صرف کنفیوژن (confusion)ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان کا معاملہ دو پہلوؤں کے درمیان ہے— عمل کے اعتبار سے آزادی، اور انجام کیاعتبار سے مجبوری۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی وہ ایک لازمی قانون فطرت سے بندھ جاتا ہے۔ اِس قانون سے باہر جانا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
انسان پیداہوتے ہی ایک ابدی مخلوق بن جاتا ہے۔ پیدائش سے موت تک کی ایک محدود مدت تک وہ عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اِس کے لیے آازاد نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مرنے سے روک سکے۔ وہ محدود مدت تک عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔ موت سے پہلے کی زندگی میں وہ آزاد ہے کہ جو چاہے، کرے۔ مگر موت کے بعد کی زندگی میں وہ اپنے آپ کو اپنے عمل کے انجام سے بچانے پر قادر نہیں۔