قادرِ مطلق، عاجز ِ مطلق
خدا اورانسان کے درمیان جو نسبت ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ خدا کُل ہے اور انسان اس کا جُز ہے۔ خدا سمندر ہے اور انسان اس کا ایک قطرہ ہے۔ اِس قسم کی تمام نسبتیں سر تا سر بے بنیاد ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ خدااور انسان کے درمیان ’’ہے ‘‘ اور ’’نہیں ‘‘ کی نسبت ہے۔ خدا سب کچھ ہے اور انسان اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ خدا، واجب الوجود (self-existing) ہے، اور انسان مکمل طور پر اور ہر اعتبار سے خدا کے حکم سے وجود میں آنے والی صرف ایک مخلوق۔
انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ ایک صاحبِ شعور مخلوق ہے۔ انسان کے ذریعے اس کائنات میں شعوری عجز کا واقعہ وجود میں آتا ہے، اور بلا شبہہ اِس سے بڑا کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔ یہی انسان کی اصل قیمت ہے۔ انسان وہ نادر مخلوق ہے، جو اِس کائنات میں شعورِ قدرت کے مقابلے میں شعورِ عجز کی دوسری انتہا (extent) بناتا ہے۔ وہ کائنات کے صفحے پر ’’عدد‘‘ کے مقابلے میں ’’صفر‘‘ کا ہندسہ تحریر کرتا ہے۔ وہ خداوندی انا کے مقابلے میں اپنے بے انا ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔
یہی شعورِ عجز انسان کا سب سے بڑا سرمایہ (asset) ہے۔ یہی کسی انسان کے لیے اس کی سب سے بڑی دریافت (discovery) ہے۔ جب کوئی عورت یا مرد عجز کی زبان بولیں، تو انھوں نے اپنی زبان کا صحیح استعمال کیا۔ اِس کے مقابلے میں جو عورت یا مرد فخر اور سرکشی اور خونمائی اور گھمنڈ اور اظہار برتری کی زبان بولیں، تو انھوں نے اپنی زبان کا غلط استعمال کیا۔ اِس دنیا میں صرف اُس انسان کو جینے کا حق ہے جو اِس کی قیمت ادا کرے، اور یہ قیمت عجز ہے۔ عجز کی قیمت ادا کیے بغیر اِس دنیا میں رہنا بلا شبہہ ایک جُرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
عجز دراصل حقیقت شناسی کی اعلیٰ ترین صورت کا نام ہے۔ عجز کوئی مجبورانہ چیز نہیں، عجز دراصل وہ مثبت کیفیت ہے جو حقیقت ِ اعلیٰ کے اختیارانہ اعتراف سے پیدا ہوتی ہے۔ عجز کوئی انفعالی کیفیت نہیں، وہ تمام فعّال کیفیات سے زیادہ بڑی فعّال کیفیت ہے۔