خدا اورانسان
مسٹر اے اور مسٹر بی کے درمیان ایک پراپرٹی کے بارے میں نزاع ہوئی۔ مسٹر اے کا کہنا تھا کہ یہ پراپرٹی ان کی ہے اور مسٹر بی نے غلط کارروائی کرکے اُس پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ دونوں کے درمیان کافی بات چیت ہوئی، لیکن مسٹر بی اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار مسٹر اے نے مسٹر بی سے کہا کہ اگر آپ خدا کی کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر یہ کہہ دیں کہ یہ پراپرٹی آپ کی ہے، تو میں آپ کے دعوے کو مان لوں گا اور پراپرٹی پر آپ کا قبضہ تسلیم کرلوں گا۔ مسٹر بی نے اِس کے جواب میں کہا— اِس میں خدا کہاں سے آگیا:
How does God come into the picture.
موجودہ زمانے میں یہی تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ ہر ایک اپنی مرضی کے مطابق، جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اور جب اس کو خدا سے ڈرایا جائے تو وہ زبانِ حال یا زبانِ قال سے کہہ دیتا ہے کہ— اِس میں خدا کہاں سے آگیا۔
یہ معاملہ صرف عوام کا نہیں ہے، بلکہ خواص بھی اِسی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں جب طبیعی سائنس میں ترقی ہوئی اور فطرت کے قوانین دریافت کیے گئے، تو جدید تعلیم یافتہ طبقے نے عام طور پر، خدا کو کائنات سے خارج کردیا۔ انھوں نے کہا جب سارے واقعات فطرت کے قوانین کے تحت ہورہے ہیں، تو پھر کائنات کی توجیہہ کے لیے خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔
خدا اِس دنیا کا خالق اورمالک ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ ساری تاریخ میں انسان، خدا کووہ اہمیت نہ دے سکا جو اہمیت اس کو دینا چاہیے تھا۔ انسان کا اپنا وجود مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ مال اور اولاد کی صورت میں جو کچھ بھی اس کے پاس ہے، وہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ روشی اور آکسیجن اورغذا اور پانی جیسی ان گنت چیزیں انسان کو مسلسل طورپر حاصل رہتی ہیں۔ اِن چیزوں کا دینے والا بھی صرف خدا ہے۔ مگر اِس سب سے بڑی حقیقت کا پوری تاریخ میں سب سے کم اعتراف کیا گیا ہے۔ انسان کے پاس خدا کو دینے کے لیے صرف ایک ہی چیز تھی اور وہ تھا اس کا اعتراف، مگر انسان اِسی واحد چیز کو دینے میں ناکام ہوگیا۔