اہتزاز یا مشقت
ایک انگریز شاعر نے ایک نظم لکھی ہے۔ اِس نظم میں بطور خود ایک مفروضہ دنیا کا خوب صورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اِس مفروضہ دنیا کے ماحول میں مسرت ہی مسرت (happiness)ہے۔ اِس نظم کی ایک لائن یہ ہے— ہر طرف اہتزاز ہی اہتزاز:
Thrill, thrill, all the way
یہ ایک شاعرانہ مفروضہ ہے۔ ایسی کوئی دنیا حقیقت میں یہاں موجود نہیں۔ خالق نے اِس دنیا کو برائے امتحان بنایا ہے، نہ کہ برائے اہتزاز۔ قرآن کی سورہ نمبر 90 میں بتایاگیا ہے کہ خدا نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے (البلد:4)۔ ایسی حالت میں، اِس دنیا میں مسرتوں سے بھری ہوئی زندگی حاصل کرنا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہ دنیا کبھی مسائل سے خالی نہیں ہوسکتی۔ اِس لیے اِس دنیا کے بارے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ— ہر طرف مشقت ہی مشقت:
Trouble, trouble, all the way
ایسی حالت میں یہ صرف نادانی ہوگی کہ آدمی اِس دنیا میں اپنے لیے خوشیوں اور راحتوں کا ایک محل بنانے کی کوشش کرے، کیوں کہ یہاں ایسا محل بننے والا ہی نہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس معاملے میں حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ پیشگی طورپر یہ یقین کرے کہ اِس دنیا میں اس کو مسائل کے جنگل میں زندگی گزارنا ہے۔ آدمی کو یہاں بے مسائل کی دنیا بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اُس کو مسائل کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنے کا فن سیکھنا چاہیے:
Man has to learn the art of problem management.
ایڈجسٹ کرنے سے انسان کا ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔اِس طرح اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔اِس کے ذریعے وہ انسانیتِ اعلیٰ کے مقام پر پہنچنے کے قابل بنتا ہے— زندگی ممکن کے دائرے میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کا نام ہے، نہ کہ ناممکنات کے دائرے میں احمقانہ چھلانگ لگانے کا۔