تحفہ کلچر

ایک بیرونی سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہوٹل کے کمرہ میں ہم دونوں نے نماز پڑھی۔ اس وقت وہ ایک رسٹ واچ پہنے ہوئے تھے۔ انھوں نے بیزاری کے ساتھ گھڑی کو اتارا اور اس کو میز پر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھڑی ٹھیک کام نہیں کرتی، وہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ میں نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ میں نے مزید پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ابھی حال میں کسی نے ان کو جلد ہی یہ گھڑی تحفہ میں دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کویت میں بھی تحفہ دینے والوں کا یہی مزاج ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحفہ کے معاملے میں ہر جگہ کے لوگوں کا مزاج ایک ہی ہے، یعنی ایسی چیز دینا جو کار آمد ہونے سے زیادہ نمائشی ہو۔

تحفہ کے بارے میں یہ شکایت میں نے بہت سے لوگوں سے سنی ہے۔ میں ذاتی طورپر اس قسم کے تحفہ کو ایک گناہ کا فعل سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ ایسا تحفہ تبذیر (فضول خرچی) کے ہم معنی ہے۔ اور تبذیر کو قرآن میں ایک شیطانی عمل کہاگیا ہے (الإسراء: 27)۔ اس قسم کے نمائشی تحفہ میں صرف مال ضائع ہوتا ہے، ایسا تحفہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا نہیں کرتا۔

حدیث میں آیا ہے کہ: تہادوا تحابّوا (الأدب المفرد للبخاری) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو، اس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔ اِس حدیث کے مطابق، صحیح ہدیہ وہ ہے جو آپس میں سچی محبت بڑھائے۔ جو ہدیہ محبت پیدا کرنے کے بجائے آپس میں کدورت پیدا کرے، جس سے ایک دوسرے کے بارے میں رائے خراب ہوجائے، ایسا ہدیہ بلاشبہہ ہدیہ کی ضد ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی ہدیہ۔

تحفہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک، نمائشی تحفہ اور دوسرے، حقیقی ضرورت کا تحفہ۔ عام طورپر لوگ نمائشی تحفہ دیتے ہیں۔ ایسے تحفہ میں پیسہ تو خرچ ہوجاتا ہے، لیکن وہ تحفہ کسی آدمی کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی یا تو حقیقی تحفہ دے، یا وہ سرے سے کوئی تحفہ نہ دے۔ نمائشی تحفہ دینا ہر گز سنتِ رسول کی پیروی نہیں ہے۔ نمائشی تحفہ دینا صرف ایک جرم ہے، نہ کہ کوئی اچھا کام۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom