سوال وجواب
سوال
الرسالہ، ستمبر 2008 میں آپ نے ’’معرفت حدیث، معرفتِ قرآن‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کثرتِ مطالعہ اور کثرتِ دعا کی ضرورت ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے، کثرتِ مطالعہ کے بجائے کثرتِ دعوت الی اللہ، اور دعا ہے۔ کیوں کہ صحابہ کو کثرتِ مطالعہ حاصل نہیں تھا۔ دن کو دعوت اور رات کو دعا سے اُن کو اللہ نے معرفتِ حدیث ومعرفتِ قرآن کا حصہ عطا فرمایا تھا۔
میں صرف اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے آپ کو یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ میں آپ کا ہم فکر ہوں، ہم خیال ہوں۔ الرسالہ کے علاوہ، کوئی دوسرا مجلّہ پابندی سے نہیں پڑھتا۔ (حکیم محمدصفدر شریف عمری، تمل ناڈو)۔
جواب
دین کا ایک ظاہری علم ہے۔ یہ علم قرآن اور حدیث کے سادہ مطالعے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ دین کے علم کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی گہری معرفت سے ہے۔ یہ معرفت غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اِس غور وفکر کی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً محاسبۂ خویش ایک غوروفکر ہے۔ کائنات کا مشاہدہ ایک غور وفکر ہے۔ قرآن اور حدیث کا تحقیقی مطالعہ ایک غورفکر ہے۔دعوت الی اللہ کے دوران اپنی عقل کو متحرک رکھنا ایک غور وفکر ہے۔ کتابوں کا مطالعہ بھی غور وفکر کی ایک صورت ہے۔ غور وفکر کے اِس عمل میں اللہ سے مدد چاہنے کا نام دعا ہے۔ دعا کا تعلق ہر دوسرے عمل سے ہے اور اِسی طرح معرفت سے بھی۔
اصحابِ رسول بظاہر کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ اُس زمانے میں آج کی طرح مطبوعہ کتابیں موجود نہیں تھیں۔ لیکن حقیقت ِ مطالعہ اُن کی زندگی میں پوری طرح شامل تھی، اور وہ ہے تفکر، تدبر، تذکر اور توسم، وغیرہ۔ اصحابِ رسول کا ذہن مسلسل طورپر اِن چیزوں میں مشغول رہتا تھا۔ مزید یہ کہ ان کے اندر سیکھنے کی طلب بے پناہ حد تک پائی جاتی تھی۔ وہ یہ صلاحیت رکھتے ـتھے کہ چیزوں کو غیر متعصبانہ ذہن کے ساتھ دیکھیں اور بے لاگ طورپر اس کے بارے میں رائے قائم کرسکیں۔ یہی چیزیں مطالعے کا حاصل ہیں، اور اِس معنیٰ میں ہر صحابی پوری طرح ایک صاحب ِ مطالعہ انسان تھا۔
سوال
اکثر لوگ اور علماء کہتے ہیں کہ علمِ نجوم سیکھنا گناہ ہے۔ یہ کس حد تک درست ہے۔ جب کہ حدیث میں آیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اُس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ کون سا علم ہے۔ علم بہر حال علم ہے۔ وہ علم جو عوامی فلاح وبہبود کے لئے موثر اور فائدہ مند ثابت ہو۔ چوں کہ علمِ نجوم بھی ایک علم ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ اِس سوال کا جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔(مولوی ایم ایس بابا تاج، کپواڑہ، کشمیر)
جواب
علماء نے علوم کی دو قسمیں کی ہیں— علومِ عالیہ، اور علومِ آلیہ۔ علومِ عالیہ سے مراد شریعت کا علم ہے، اور علومِ آلیہ سے مراد وہ علوم ہیں جو معاون علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علمِ نجوم اپنی نوعیت کے اعتبار سے، علومِ آلیہ میں شامل ہے۔ اصولی طورپر وہ ایک جائز علم ہے۔ لیکن علمِ نجوم کے دو دور ہیں۔ ایک قبل از سائنس، اور دوسرا بعد از سائنس۔ سائنس کے ظہور سے پہلے جو علمِ نجوم دنیا میں رائج تھا، وہ تمام تر توہمات(superstitions) پر مبنی تھا۔ یہ قدیم علمِ نجوم بلا شبہہ ایک غیر مطلوب علم تھا، عقلی اعتبارسے بھی اور اسلامی اعتبار سے بھی۔آج اگر کوئی شخص قدیم علمِ نجوم میں مشغول ہو تو وہ صرف ایک لغو کام میں مشغول ہونے کے ہم معنیٰ ہوگا۔ اور قرآن میں اہلِ ایمان کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں۔ (المؤمنون: 3)
موجودہ زمانے میں علمِ نجوم (astrology) سائنسی اعتبار سے ایک متروک علم بن چکا ہے۔ اب اِس معاملے میں جس علم کا رواج ہے، وہ علمِ فلکیات (astronomy) ہے۔ جدید علمِ فلکیات ایک خالص سائنسی علم ہے، اور مسلمانوں کو بلاشبہہ اِس علم میں درک حاصل کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ پورے معنوں میں علومِ آلیہ میں شامل ہے۔
علومِ عالیہ یعنی شرعی علوم کی اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے ہمیں خدا کی معرفت اور دین کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں، علومِ آلیہ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں زندگی کی تعمیر وتشکیل کے لیے مدد گار علم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اہلِ ایمان کے لیے دونوں کا حصول ضروری ہے۔
سوال
قرآن کی سورہ الصافات کی آیت نمبر8 میں شیطان کے مارنے کی بابت تذکرہ آیاہے۔ یہاں شیطان کو مارنے سے کیا مراد ہے۔ تذکیر القرآن صفحہ 1223پر اس کی تشریح درج ہے۔ مگر بار بار اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی میں اس کی حقیقت کو بھیجنے سے قاصر رہا۔(شاہ عمران حسن، نئی دہلی)
جواب
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم کی دو قسمیں ہیں— محکمات، اور متشابہات (آل عمران: 7) محکمات سے مراد وہ علم ہے جس میں ضروری معلومات (data) قابلِ حصول ہوں اور اِس بنا پر ان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ممکن ہو۔ علم کی اِس قسم کے بارے میں غور وفکر کرنا ایک مطلوب چیز ہے اور اس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے۔
متشابہات سے مراد وہ علم ہے جس میں ضروری معلومات قابلِ حصول نہ ہوں۔ ایسے علمی شعبے میں ہمارے لیے صرف یہ ممکن ہے کہ ہم علمِ قلیل (الإسراء: 85) پر قناعت کریں، اور مجمل علم سے زیادہ جاننے کی کوشش نہ کریں۔ کیوں کہ ایسا کرنا ہمیں کسی یقینی علم تک نہیں پہنچائے گا، بلکہ وہ ہمیں کنفیوژن میں مبتلا کردے گا۔ سورہ الصافات کی مذکورہ آیت میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ اِسی علمِ قلیل کے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس کو علمِ کثیر کے زمرے میں لاکر اس کی تفصیل جاننے کی کوشش کرنا صرف ایک غیر مطلوب فعل ہے۔ اس کے نتیجے میں آدمی کو کنفیوژن کے سوا اور کچھ ملنے والا نہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں آدمی کے لیے صرف ایک ہی ممکن راستہ ہے، وہ یہ کہ آدمی اُن کی کُنہ تک پہنچنے کے بجائے، اپنی محدودیت (limitations) کو جاننے کی کوشش کرے۔ اِس طرح کے معاملات میں اپنی محدودیت کو جاننا ہی سب سے بڑا علم ہے۔