بل تو اپنا بل
ایک قدیم ہندی مثل ہے کہ— بَل تو اپنا بَل۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کام کرے، وہ خود اپنی طاقت کی بنیاد پر کرے۔ دوسروں کی طاقت کے بھروسے پر کام کرنا، ایک ایسا تجربہ ہے جوباربار ناکام ہوا ہے۔ اب اِس قسم کے تجربے کو دہرانا، کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے۔ وہ بزنس کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس سرمایہ کم تھا۔ اپنے محدود سرمائے سے وہ صرف چھوٹا بزنس کرسکتے تھے۔ انھوں نے بڑے بزنس کے شوق میں بینک سے قرض لے لیا، یا کسی کو اپنا پارٹنر (partner)بنا لیا۔ چند سال کے بعد وہ پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ آخر کار اُن کا بزنس ناکامی کے ساتھ ختم ہوگیا۔
اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی محنت اور اپنے سرمائے پر بھروسہ کرے۔ اپنی محنت اور اپنے سرمائے سے اگر وہ صرف چھوٹا کاروبار کرسکتا ہے، تو اُس کو چاہیے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر اپنا کام شروع کرے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے ترقی کے مقام تک پہنچے۔ یہی کام کا فطری طریقہ ہے۔ اِس کے برعکس، دوسرا طریقہ چھلانگ (jump)کا طریقہ ہے، اور چھلانگ کا طریقہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
چھوٹے چھوٹے چشموں سے مل کر دریا بنتا ہے۔ دھیرے دھیرے بڑھ کر ایک پودا درخت بنتا ہے۔ ذرہ ذرہ کے ملنے سے پہاڑ وجود میں آتے ہیں۔ یہی وہ فطری طریقہ (natural course) ہے جس سے اِس دنیا میں کوئی بڑا واقعہ وجود میں آتا ہے۔ انسان کو بھی اِسی فطری طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ اِس دنیا میں کسی اور طریقے کو اختیار کرکے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ یہی فرد کی کامیابی کا اصول ہے، اور یہی قوم کی کامیابی کا اصول بھی۔ اپنی ذاتی طاقت کے بعد جو چیز آدمی کے کام آتی ہے، وہ فطرت کا نظام ہے، نہ کہ کسی دوست یا پارٹنر کی مدد— اِس دنیا میں آدمی کا واحد مدد گار فطرت کا نظام ہے، نہ کہ کسی دوسرے انسان کا تعاون۔