دعوت اور اقدام کا فرق
دعوت پُرامن تبلیغ کا نام ہے۔ اِس کے برعکس، اقدام یہ ہے کہ کسی کے خلاف عملی کارروائی کی جائے، اِس فرق کی بنا پر دونوں کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے۔ پُر امن دعوت کا کام ہر حال میں کیا جائے گا، خواہ لوگ اس کو قبول کریں یا نہ کریں، لیکن عملی اقدام کے معاملے میں اس کے نتیجہ (result) پر غور کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اگر نتیجہ نکلنے والا ہو تو یہ اقدام کیا جائے گا اور اگر نتیجہ نکلنے والا نہ ہو تو عملی اقدام سے کامل پرہیز کیاجائے گا۔
دعوت کا انحصار تمام تر داعی کی اپنی ذات پر ہوتا ہے۔ داعی کا اپنا ارادہ کافی ہے کہ دعوت کے عمل کو انجام دیا جائے۔ اگر داعی حقیقی طورپر اپنی دعوتی ذمے داری ادا کردے تو اس کو کامیاب سمجھا جائے گا، خواہ مدعو گروہ نے اُس کی دعوت کو قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
عملی اقدام کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ عملی اقدام میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کے ساتھ مقابلہ اور ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس بنا پر، عملی اقدام دو گروہوں کے درمیان طاقت آزمائی (power struggle) کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کو زیر کرنے کے لیے اپنے ذرائع کو استعمال کرنے لگتا ہے۔ یہ مقابلہ آرائی اکثر فساد اور تشدد اور جنگ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ عملی اقدام، اکثر حالات میں کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔
اِس فرق کی بنا پر ہر فرد یا گروہ کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو پرامن دعوت تک محدود رکھے، وہ ہر گز عملی اقدام نہ کرے۔ عملی اقدام بطور دفاعی کارروائی تو جائز ہوسکتا ہے، لیکن دفاعی صورتِ حال کے بغیر اقدام سرے سے جائز نہیں۔ اِس اصول کی خلاف ورزی کسی بھی حال میں، کسی بھی فرد یا گروہ کے لیے درست نہیں— پُرامن فکری کوشش ہر حال میں کی جاسکتی ہے، لیکن عملی اقدام صرف اُس وقت کیا جائے گا، جب کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہونے والا ہو۔