عجلت پسندی

قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ارشاد ہوا ہے: خُلق الإنسان من عجل(الأنبیاء: 37) یعنی انسان پیدائشی طورپر عجلت پسند ہے۔ ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ: التأنّی من اللہ، والعجلۃ من الشیطان(التّرمذی، کتاب البرّوالصلۃ) یعنی بُردباری اللہ کی طرف سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے۔

انسانی فکر اور انسانی عمل دونوں کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں— ایک ہے عجلت کا انداز، اور دوسرا ہے بردباری کا انداز:

To proceed hurriedly, To proceed unhurriedly

اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک صفت وہ رکھی گئی ہے جس کو حساسیت (sensitivity) کہاجاتا ہے۔ یہ حساسیت ایک استثنائی نوعیت کی قیمتی صفت ہے۔ لیکن ہر دوسری صفت کی طرح، اِس صفت کا بھی پلس پوائنٹ (plus point) اور مائنس پوائنٹ(minus point) ہے۔ اِس صفت کا پلس پوائنٹ مثال کے طورپر حیا ہے۔ اِسی طرح، عجلت اِس صفت کا ایک مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ دراصل حساسیت ہے جس کی وجہ سے آدمی عجلت پسند بن جاتا ہے۔

حساسیت، خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر حساسیت نہ ہو تو آدمی حیوان کے مانند ہوجائے گا۔ بُرائی کو برائی سمجھنے کا مزاج اس کے اندر سے ختم ہوجائے گا۔ عجلت کا مزاج اِسی حساسیت کا ایک منفی نتیجہ ہے۔ آدمی کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور فوری طورپر ایک رائے بنا لیتا ہے، یا فوری طورپر وہ کوئی اقدام کردیتا ہے۔ فکر یا عمل میں اِس قسم کا عاجلانہ انداز اِسی حساسیت کا ایک غیر مطلوب اظہار ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عجلت پسندی کے مزاج کو عقل کے تابع بنائے۔ وہ ایسا کرے کہ بولنے اور کرنے سے پہلے سوچے۔ وہ سوچنے کے بعد کوئی بات کہے اور سوچنے کے بعد کوئی عمل کرے۔ عجلت پسندی کو قابو میں رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے— عجلت پسندی کا مزاج تو ختم نہیں ہوسکتا، البتہ عقل کے تابع رکھ کر اس کو مفید بنایا جاسکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom