وقفۂ تعمیر
کائنات خدا کی خاموش کتاب ہے ۔ وہ ربانی حقیقتوں کو تمثیل کے روپ میں بیان کرتی ۔ ہے۔ آدمی اگر کائنات کی خاموش زبان کو سن سکے تو وہ اس کے لیے معرفت کا عظیم ترین کتب خانہ بن جائے۔
درخت کو دیکھئے۔ درخت زمین سے نکلتا ہے تو وہ کمزور پودے کی مانند ہوتا ہے۔ اس کے تنہ میں ابھی طوفان کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ اس وقت درخت کیا کرتا ہے ۔ وہ سراپا نرمی بن جاتا ہے ۔ ہواؤں کے جھونکے آتے ہیں تو وہ ان کے مقابلہ میں اکڑتا نہیں ، بلکہ ہوا کا جھونکا اس کو جس طرف لے جانا چاہتا ہے ، وہ اسی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ ، حالی کی زبان میں،"چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کی تصویر بن جاتا ہے"۔
مگر اسی پودے کو ۲۵ سال بعد دیکھئے تو وہ بالکل دوسری تصویر پیش کر رہا ہو گا۔ اب وہ اپنے موٹے تنہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ اب جھکنے کا لفظ اس کی ڈکشنری سے خارج ہو چکا ہوتا ہے ۔ وہ ہواؤں کے جھونکے سے غیرمتاثر رہ کر سیدھا اپنی جڑوں پر کھڑا رہتا ہے۔ اب وہ زمین پر"درخت" بن کر رہتا ہے، جب کہ اس سے پہلے وہ "پودا "بن کر رہ رہا تھا۔
درخت اس طرح تمثیل کی زبان میں بتارہا ہے کہ ہر آدمی پر ابتداءً وہ وقت آتا ہے جب کہ اس کو ایک وقفۂ تعمیر درکار ہوتا ہے۔ جب ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جڑیں زمین میں داخل کرے۔ وہ اپنے تنہ کو مضبوط کرے ۔ وہ اپنے آپ کو ایک طاقتور وجود کی حیثیت سے نشو و نما دے۔ اس وقفہ کے دوران اس کو اس طرح نہیں رہنا چاہیے جس طرح کوئی شخص مضبوط اور مستحکم ہونے کےبعد رہتا ہے ۔
اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو نرمی اور موافقت (Adjustment) کا مجسمہ بن جانا چاہیے ۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کو تعمیر کا وقفہ نہیں ملے گا ، اور جو کوئی وقفۂ تعمیر سے محروم ہو جائے ، وہ کبھی مرحلۂ تعمیر تک بھی نہیں پہنچے گا ۔ ایسا شخص ہمیشہ کمزور پودا بنارہے گا، وہ کبھی تناور درخت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔