بددعا نہیں
لَيۡسَ لَكَ مِنَ ٱلۡأَمۡرِ شَيۡءٌ أَوۡ يَتُوبَ عَلَيۡهِمۡ أَوۡ يُعَذِّبَهُمۡ فَإِنَّهُمۡ ظَٰلِمُونَ وَلِلَّهِ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي ٱلۡأَرۡضِۚ يَغۡفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٞ [آل عمران: 128-129]
تم کو کچھ اختیار نہیں ۔ اللہ یا ان کو توبہ کی توفیق دے یا ان کو عذاب دے ، کیوں کہ وہ ظالم ہیں۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے ، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
احادیث سے ثابت ہے کہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کافروں اور مشرکوں پرلعنت کی اور ان کے خلاف بد دعا کی ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ اس آیت میں ان کا فروں اور مشرکوں کو صاف طور پر "ظالم "کہا گیا ہے ۔ مگر ظالم ہونے کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ آپ ان پر لعنت بھیجیں اور ان کے خلاف بد دعا فرمائیں۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت مختلف روایتیں جمع کی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے آیت کا مفہوم پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ۔ یہاں ہم کچھ روایتوں کو مختصر طور پر نقل کرتے ہیں ۔
امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی دوسری رکعت میں جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد یہ کہتے : اللهم العن فلاناً وفلاناً ( خدایا فلاں اور فلاں پر لعنت کر) اس پر اللہ تعالی نے مذکورہ آیت نازل فرمائی اور لعنت سے منع کر دیا ، امام احمدنے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ اے اللہ، حارث بن ہشام ، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ پر لعنت کر، اس پر مذکورہ آیت اتری (اور آپ کو لعنت سے منع کر دیا گیا )
امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین میں سے کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کے خلاف بد دعا کرتے تھے ۔ یہاں تک اللہ تعالٰی نے مذکورہ آیت اتاری (تو آپ نے بددعا چھوڑدی) امام بخاری نے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ غزوہ ٔاحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے تو آپ نے کہا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جو اپنے نبی کو زخمی کرے ۔ اس وقت مذکورہ آیت اتری اور آپ اپنے قول سے باز آ گئے ، امام احمد نے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے دانت ٹوٹ گئے اور آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ پر خون بہہ پڑا۔ آپ نے کہا کہ وہ قوم کیسے فلاح پائے گی۔ جس نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا کیا، حالاں کہ وہ ان کو ان کے رب کی طرف بلار ہا تھا۔ اس وقت مذکورہ آیت اتری (اس کے بعد آپ رک گئے ) تفسیر ابن کثیرالجزء الاول ، صفحہ ۴۰۳ - ۴۰۲
سورہ آل عمران کی مذکورہ آیت اور اس کی تشریحی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین اسلام کے کھلے ہوئے ظلم کے باوجود ان پر لعنت کرنا یا ان کے خلافت بدعا کرنا جائز نہیں ۔ جارحیت کی صورت میں بشرطِ استطاعت ان سے دفاع کیا جائے گا، مگر عین اس وقت بھی ان کے خلاف بد دعا نہیں کی جائے گی جب کہ وہ میدان جنگ میں اترے ہوئے ہوں ، حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ انھوں نےپیغمبر ِخدا کو زخمی کر دیا ہو ۔
اسی کا نام داعیانہ اخلاق ہے ۔ داعی کو ہر حال میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ داعی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مدعو سے نفرت کرنے لگے۔ مدعو اگر زیادتی کرے تب بھی حکم ہے کہ داعی اس کو برداشت کرے ۔ وہ دعا گوئی کی حد تک اس کا خیر خواہ بن جائے۔
داعی کی یہ روش اس کی دعوت کو طاقت ور بناتی ہے۔ وہ اس کے دعوتی عمل کو تسخیری عمل کے درجہ تک پہنچا دیتی ہے ۔