خبر نامہ اسلامی مرکز - ۵۵
۱۔ ۱۴ جولائی ۱۹۸۹ کو آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے صدر اسلامی مرکز کی ایک تقریر نشر کی گئی۔ تقریر کا عنوان تھا: قربانی کا تصور اور ہمارا معاشرہ ۔ تقریر میں بتایا گیا تھا کہ قربانی کے عمل کا بہت گہرا تعلق انسانی زندگی کی تعمیر سے ہے۔ قربانی کا عمل اس کی صحیح اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو پورا انسانی معاشرہ صحت مند معاشرہ بن جائے ۔
۲۔ایک صاحب سلطنت عمان سے لکھتے ہیں : میں ۱۹۸۴ سے الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ میں الرسالہ سے اس قدر مانوس ہوا ہوں کہ ہر ماہ بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتا ہوں۔ میں خود الرسالہ پڑھتا ہوں اور پھر اس کو بلوچستان میں اپنے دوستوں کے لیے بھیج دیتا ہوں۔ عرب امارات میں میرے ایک رشتہ دار ہیں ، اور ایک بحرین میں ہیں۔ ان سب کو بھی برابر الرسالہ بھیجتا ہوں۔ ہم سب کو یہ رسالہ بہت پسند ہے ۔ آپ کی اعراض کی نصیحت پر میں خود عمل کرتا ہوں اور دوسروں سے کہتا ہوں۔ میں نے آپ کی کتاب خاتون اسلام بھی پڑھی ۔ بہت اچھی ہے۔
۳۔ٹائمس آف انڈیا گروپ کی طرف سے ۶ ستمبر ۱۹۸۹ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع آنکھ کا عطیہ اور مذہب(Eye donation and religion تھا ۔ صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر اسلامی نقطہ نظر سے روشنی ڈالیں۔ اس کے مطابق صدر اسلامی مرکز نے نئی دہلی کے اس سمینار میں شرکت کی اور" آنکھ کا عطیہ اور اسلام " کے موضوع پر انگریزی میں ایک مقالہ پیش کیا جو بہت پسند کیا گیا۔ یہ مقالہ ان شاء الله الرسالہ (انگریزی) میں شائع کر دیا جائے گا۔
۴۔ٹوکیو (جاپان) سے ایک اخبار نکلتا ہے جس کا نام سیکائی نپو (Sekai Nippo) ہے۔ اس اخبار کے ایک جاپانی رپورٹر کونیونیشی(Kunio Nishi) ۶ اگست ۱۹۸۹ کو اسلامی مرکزمیں آئے اور ہندستانی مسلمانوں کے مسائل پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا مسٹرکو نیو نیشی انگریزی زبان سے بخوبی واقف تھے ۔ چنانچہ انھیں گاڈ ارائزز اور مرکز کے کچھ دوسرےانگریزی لٹریچر دیے گئے ۔
۵۔ایک دعوت نامہ کے تحت صدر اسلامی مرکز نے راجستھان کا سفر کیا اور خطابات کیے۔ یہ سفر ۲۷ جولائی کو شروع ہوا اور یکم اگست ۱۹۸۹ کو ختم ہوا ۔ اس سفر کی روداد ان شا اللہ اس سفرنامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کر دی جائے گی۔
۶۔راجستھان کے سفر (جولائی ۱۹۸۹) میں وہاں کے مسلمانوں نے یہ کہا کہ ہماری ریاست ایک ہندی ریاست ہے ۔ ہمارے بچے اب ہندی پڑھتے ہیں۔ ان کے لیے ہندی الر سالہ کی سخت ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں کہا گیا کہ ان شاء اللہ الرسالہ کاہندی اڈیشن بھی جاری کیا جائے گا فی الحال وہاں کے بعض مقام پر یہ انتظام کیا گیاہے کہ مسلم نوجوانوں کو اس پر آمادہ کیا گیا کہ وہ ہفتہ میں ایک بار کسی مقام پر جمع ہوں۔ کوئی اردو داں نوجوان الرسالہ کا ایک دو صفحہ پڑھ کر سنائے اور قابل فہم زبان میں اس کی تشریح کرے۔ شیو گنج میں اس نوعیت کا پہلا اختتامی اجتماع ۲۹ جولائی کو کیا گیا۔ یہ طریقہ دوسرے مقالات پر بھی اختیار کرنا چاہیے۔
۷۔ایک صاحب سلالہ (سلطنت عمان) سے لکھتے ہیں : اب ایسا ہو گیا ہے کہ زندگی کے معمولات کو برتنے سے بیشتر آپ کی تحریر راہ نمائی کا ذریعہ بننے لگی ہے ۔ الرسالہ کا مطالعہ کرنے والا شخص کبھی غیر سنجیدہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ الرسالہ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ بجھے ہوئے دماغ کونئی روشنی عطا کرتا ہے اور حالات کے ماروں کو غیر معمولی توانائی بخشتا ہے۔ میں آپ کی کتابوں کو عیسائی اور غیر مسلم برادری میں اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنارہا ہوں۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کو ابھی تک کوئی صالح مواد فراہم نہیں کیا گیا ۔ آج مسلمانوں کا جو بھی اخباریا رسالہ ہے ، سب نفرت کی تبلیغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ان شاء اللہ آپ کے پیغام اور الرسالہ کی دعوت کے ذریعہ یہ کام ہو سکے گا۔ (فطین اشرف صدیقی)
۸۔لئیق احمد خاں انجینیر نے بتایا کہ بنگلور میں مسیحی دکان دار ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں کو سامان کے ساتھ اپنے مذہب کی کتاب بطور گفٹ دیتے ہیں۔ وہاں حلقۂ الرسالہ (عبدالله برمی) صاحب وغیرہ نے یہ تحریک چلائی کہ مسلمان دکاندار اسلامی مرکز کی کتا بیں اپنے گاہوں کو گفٹ کے طور پر دیں ۔ چنانچہ بہت سے دکاندار راضی ہو گئے۔ وہ جب کسی گاہک کے ہاتھ اپنا سامان فروخت کرتے ہیں تو اس کو مرکز کی چھپی ہوئی کوئی انگریزی یا اردو کتاب بطور گفٹ (تحفہ) دیدیتے ہیں۔ یہ طریقہ دوسرے شہروں میں بھی کامیابی کے ساتھ چلایاجا سکتا ہے ۔
۹۔دہلی کے انٹلکچول فورم کی طرف سے ایک سمپوزیم ۲۸ جولائی ۱۹۸۹ کو ہوا ۔ اس کی کاروائیاں ہماچل بھون (نئی دہلی) میں انجام پائیں ۔ اس کا موضوع تھا ، نیشنلزم اینڈ کمیو نلزم ۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر ایک سفر کی وجہ سے وہ اس میں شرکت نہ کر سکے ۔ تاہم منتظمین کو موضوع سے متعلق کچھ لٹریچر روانہ کردیا گیا۔ اس سمپوزیم کے کنوینر ڈاکٹر وجے کمار ملہوترا تھے۔
۱۰۔شتم ِرسول کے مسئلہ پر ایک مفصل کتاب تیار ہوئی ہے ۔ اس کی کتابت ۱۸۴ صفحہ پر مکمل ہوئی ہے ۔ اس کا نام "رشدیات"ہے ۔ ان شاء اللہ جلد ہی وہ چھپ کر شائع ہو جائے گی۔
۱۱۔ایک قدیم اور مشہور دار العلوم (عربی درسگاہ )کے ایک طالب علم اپنے خط مورخہ ۴ جولائی میں لکھتے ہیں ، یہاں دار العلوم میں ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے ۔ وہ یہ کہ طلبہ مجھ سے الرسالہ لیتے ہیں اور اس کے مضامین کا عربی ترجمہ کرتے ہیں ، صرف اس لیے کہ الرسالہ کی زبان اتنی معیاری اور عام فہم ہوتی ہے کہ اس سے عربی ترجمہ کی بہت اچھی مشق کی جاسکتی ہے ۔ میں نے عربی میں ترجمہ کرنا شروع کیا تو واقعی بہت زیادہ فائدہ محسوس ہوا۔ خصوصاً اس لیے کہ صرف ایک صفحہ کا مضمون ہوتا ہے ، اس لیے تھکا وٹ نہیں ہوتی۔ دوسرے دن نیا مضمون پھر سے نشاط پیدا کر دیتا ہے ۔ میرے بہت سے ساتھی الرسالہ کے قدیم نسخے میرے پاس سے لے جا کر عربی میں اور بعض طلبہ انگلش میں بھی ترجمہ کر رہے ہیں ۔ میں الحمدللہ روزانہ کم ازکم الرسالہ کے ایک مضمون کا عربی اور انگریزی دونوں میں ترجمہ کر رہا ہوں ۔ دوسروں کے مضامین میں اتنی پیچیدگی ہوتی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت بار بار جھنجھلاہٹ ہوتی ہے، لیکن الرسالہ کے مضامین کے ترجمہ میں ایک عجیب لطف محسوس ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو بات بھی اس میں ہوتی ہے وہ بالکل صاف سید ھے اور ٹھیک اسلوب میں ہوتی ہے۔ بے باک اندازِ تحریر اور دو دو چار کی طرح واضح بات ہوتی ہے۔