فخر یا شکر

مز بھارتی مکھر جی ایک ہندستانی خاتون ہیں ۔ ۱۹۶۱ سے وہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے –––––––  درمیانی آدمی اور دوسری کہانیاں :

The Middleman and Other Stories

اس کتاب کو ۱۹۸۸ کی بہترین کہانی (The best fiction of 1988) قرار دیتے ہوئےگراں قدر انعام دیا گیا ہے ۔ یہ انعام نیو یارک کے ادارہ  National Book Critics Circleنے ان کو دیا ہے ۔

مز بھارتی مکھر جی منہاٹن (امریکہ ) میں رہتی ہیں ۔ مذکورہ انعام کی خبر معلوم ہونے کے بعد نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا  ( ۱۳ جنوری ۱۹۸۹) نے مز بھارتی سے ٹیلی فون پر ربط قائم کیا اور ان سے پوچھا کہ انعام کی خبر جب آپ نے سنی تو آپ پر کیا تاثر ہوا ۔ مز بھارتی نے جواب دیا کہ اس سے مجھ پر ایک تموج کی کیفیت طاری ہوگئی ہے :

I am thrilled about it

دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ملیں گے جن کو ان کے کسی کا رنامہ پر انعام اور تحسین ملے تو ان پر تموج (تھرل )کی کیفیت طاری ہو جائے ۔ مگر ایسا آدمی شاید ساری دنیا میں ایک بھی نہیں جس  کو اس منعم حقیقی کے عطیہ  پر تموج (تھرل )کی کیفیت پیدا ہو جس کے دیے ہوئے جسم اور دماغ اور موافق حالات کو استعمال کر کے اس نے یہ کارنامہ انجام دیا ۔

غیر معمولی صلاحیتوں والا ذہن، انتہائی موزوں جسم اور بے شمار موافق حالات ہی کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص سوچے ، منصوبہ بنائے اور عمل کر کے اس کو تکمیل تک پہونچائے۔ اور یہ سب کچھ بلاشبہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کارنامہ خدا کا کارنامہ ہے۔ہر کار نامہ کا فضل خدا کو پہنچتا ہے ۔ آدمی اس راز کو جانے تو وہ اپنی ہر کامیابی پر خدا کے آگے سجدہ میں گر جائے ۔ مگرنا دان انسان اس کو اپنا کارنامہ سمجھ لیتا ہے۔ جس واقعہ پر اس کے اندر شکر کاجذبہ ابھرنا چاہیے ، اس کو وہ اپنے لیے فخر کا سرمایہ بنالیتا ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom