حاضر جوابی

مولانا سعید احمد خاں سلطان پوری، جمعیۃعلماء ہند کے آرگنائزر تھے ۔ لوگ انھیں از راہ محبت "دادا" کہا کرتے تھے۔ ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ کو اپنے وطن سلطان پور میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بوقت انتقال ان کی عمر تقریباً ۷۰  سال تھی۔

وہ نہایت حاضر جواب آدمی تھے ۔ ایک بار کا قصہ ہے۔ وہ مسجد عبد النبی (نئی دہلی )میں ایک مجلس کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں ایک خوش پوش، بلند قامت آدمی آکر سامنے کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے تیز وتند لہجہ میں کہا کہ آپ کے دفتر کے کارکن نہایت بد تمیز ہیں۔ وہ ہم جیسے لوگوں کا احترام نہیں کرتے ۔ اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ حسب ذیل تھی :

مولانا سعید احمد      :      آپ کون صاحب ہیں ۔

نو وارد             :       مجھ کو آپ نہیں جانتے ، میں پنجاب کا رہنے والا ہوں۔

مولانا سعید احمد      :      جی ہاں نہیں جانتا۔ اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں۔

نو وارد             :       میں اس زمانہ کا نبی ہوں ، اور۔۔۔۔۔۔

مولانا سعید احمد      :       اگرتم نبی ہوتومیں تمہارا خدا ہوں، تم کو حکم دیتا ہوں کہ تم فوراً یہاں سے نکل جاؤ۔

اپنے موقع کے لحاظ سے یہ بلاشبہ بہترین جواب تھا۔ بعض مواقع پر علمی اور منطقی جواب زیادہ کار آمد ہوتا ہے ۔ مگر بعض مواقع ایسے ہیں جہاں جواب کا وہ انداز زیادہ کارآمد ہے جس کی ایک مثال مذکورہ گفتگو میں نظر آتی ہے۔

اسی کو عام زبان میں حاضر جوابی کہتے ہیں۔ حاضر جوابی ایک اعلیٰ انسانی صلاحیت ہے۔تا ہم استعمال کے اعتبار سے اس کی دو الگ الگ قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس خداداد صلاحیت کو باطل کے توڑ کے لیے استعمال کیا جائے جس کی ایک مثال اوپر کا واقعہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس صلاحیت کو لوگوں کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کر ے ۔ اس کا پہلا استعمال بلاشبہ مطلوب ہے ، اور اس کا دوسرا استعمال بلاشبہ غیر مطلوب ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom