نئے دور کے کنارہ پر
امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو بہت زیادہ دولت مند ہیں۔ اس میں ۳۰ بڑے بڑے دولت مندوں کے مفصل انٹرویو درج کیے گئے ہیں۔ یہ وہ امریکی سرمایہ دار ہیں جن کا سرمایہ ۱۹۸۷ کے اندازہ کے مطابق ۴۲۵ ملین ڈالر تھا۔ کتاب کا نام یہ ہے :
The Ultra Rich, by Vance Packard, Little, Brown; 358 pages.
ان سرمایہ داروں کے پاس ممکن مسرفانہ خرچ سے بھی زیادہ رقم ہے۔ ان کے پاس اتنے بڑے بڑے مکانات ہیں جن کے اندر ہوائی جہازوں کے اترنے کے لیے رَن وے (Runway) تک موجود ہے۔ وغیرہ (ٹائم ۱۳ فروری ۱۹۸۹)
تاہم وہ اپنی دولت سے پریشان ہیں۔ ایک دولت مند نے کہا کہ میر امکان مجھ کو ایک وسیع قسم کا سرسبز پنجرہ (Verdant cage) معلوم ہوتا ہے۔ ایک اور دولت مند نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر میں اس کو کیا کروں :
I didn't know what the hell to do with it.
ان دولت مندوں کو اکتاہٹ کے علاوہ اور بھی مسائل درپیش ہیں۔ مثلاً ایک دولت مند نے کہا کہ اس کے بچے جلد ہی خود کروڑ پتی (Millionaires) ہو جائیں گے۔ وہ اپنی ۳۴۰ ملین ڈالر کی دولت کا کوئی حصہ انھیں دینا نہیں چاہتا ۔ کیوں کہ زیادہ دینا ان کو خراب کر دے گا :
Giving more just spoils them.
مصنف وانس پیکارڈ جو خود اقتصادیات کا عالم ہے ، اس نے تفصیلی جائزہ کے بعد اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تھوڑے سے افراد کے درمیان زیادہ دولت کا اجتماع بہت برا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی اچھی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ اس کے علاج کے لیے مصنف نے ایک تجویز پیش کی ہے ––––– ایک خاص مقدار، مثلاً ۲۵ ملین ڈالر کے بعد ، پوری دولت پر ٹیکس لگانا :
Taxing net worth above a certain level (Say, $ 25 million).
سرمایہ دارانہ نظام میں نفع پرٹیکس کا اصول ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جس شخص کے پاس دولت ایک بار آجائے وہ مسلسل بڑھتی رہتی ہے ۔ اور اس کے نتیجہ میں دولت کے ارتکاز (Concentration of wealth) کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خرابی موجودہ سرمایہ دارانہ ممالک میں آخری حد تک آچکی ہے۔
پوری دولت پر سال بہ سال ٹیکس لگانا ایک اسلامی تصور ہے ۔ یہ عین وہی چیز ہے جس کو شریعت اسلامی میں زکوۃ کہا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں نے وہاں کے سنجیدہ لوگوں کو کسی نئے معاشی اصول کا متلاشی بنا دیا ہے ۔ حتی کہ اب وہ زکوۃ کا نام لیے بغیر زکوۃ کے اصول کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگے ہیں ۔
آج وہ بہترین وقت آگیا ہے جب کہ مغربی ملکوں کے سامنے اسلام کے معاشی اصولوں کو پیش کیا جائے اور وہ اس کو موجودہ سرمایہ داری کا نعم البدل سمجھ کر اسے قبول کر لیں ، اور اسی کےساتھ پورے اسلام کو بھی ۔
آج کی دنیا ایک نئے دور کے آغاز کے کنارے کھڑی ہے ۔ یہ وہی دور ہے جس کا متعین نام" اسلامی نظام "ہے ۔ تاہم دنیا کو اس طرف لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف ایک ہے۔ اور وہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے غیر مسلم اقوام سے اپنے جھوٹے قومی مسائل کے لیے جھوٹی لڑائی چھیڑ رکھی ہے۔ اس لڑائی سے انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ عظیم نقصان ہے کہ ان کے ان قومی جھگڑوں کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نا قابل بیان تلخی پیدا ہو گئی ہے۔ اس بنا پر وہ اسلام کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر کے قابل نہیں رہے ہیں۔ اگر مسلمان صرف اتنا کریں کہ وہ کچھ نہ کریں یعنی دوسری قوموں سے قومی اور مادی جھگڑے ختم کر دیں تو اسلام خود اپنی طاقت سے پھیلنے لگے گا۔ بغیر اس کےکہ اس کو پھیلانے کی براہ راست جدو جہد کی گئی ہو ۔