حُسن ِتدبير
جولائی ۱۹۸۹ کے آخری ہفتہ میں میں راجستھان میں تھا ۔ وہاں میری ملاقات جناب مشتاق احمد صاحب (۵۶ سال) سے ہوئی ۔ وہ شیو گنج (ضلع سروہی) کے رہنے والے ہیں ۔ اور وہاں کے ایک پرانے تاجر ہیں ۔ ان کی تجارتی زندگی نے ان کے اندر وہی اخلاقی صفت پیدا کر دی ہے جس کو "یک طرفہ حسن اخلاق " کہا جاتا ہے۔
انھوں نے ۱۹۸۸ کا ایک ذاتی واقعہ بتایا ۔ یہ واقعہ بے حد سبق آموز ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہر قسم کے فساد کو ختم کرنے کے لیے شاہ کلید ہے، بشرطیکہ آدمی اس کی گہرائی کو سمجھے اور اس کو صبر و حکمت کے ساتھ استعمال کرے ۔
انھوں نے بتایا کہ رمضان سے کچھ پہلے شیو گنج میں ان کی مسجد کی دیوار پر کسی ہندو نوجوان نے ہندی زبان میں کچھ نعرے لکھ دیے۔ مثلاً "دیش کے لیے جینا سیکھو"۔" ہندو جاگے گا ، دیش جاگے گا" ۔ اس طرح کے کچھ اور نعرے تھے جو بظاہر قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تھے ۔ مگر مشتاق احمد صاحب نہ اس پر غصہ ہوئے اور نہ اس کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے سادہ طور پر صرف یہ کیا کہ دیوار کے اس حصہ کو پانی سے دھو دیا جہاں نعرے لکھے ہوئے تھے ۔
رمضان سے پہلے ہر سال ان کی مسجد میں سفیدی ہوتی ہے۔ چنانچہ شعبان کا مہینہ آیا تو مسجد کی دیواروں پر سفیدی کر دی گئی۔ اس طرح نعروں کا نشان مکمل طور پر غائب ہو گیا ۔ جہاں پہلے کالی سیاہی سے نعرے لکھے ہوئے تھے وہاں سفید چمکتی ہوئی دیوار نظر آنے لگی۔
میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے کہا کہ یہی اسلام ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ صرف قومی سرکشی ہے ، اس کا اسلام سےیارسول اللہ کی سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر برائی کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی شرط صرف ایک ہے ––––– آدمی کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ وہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی سیاہی پر اپنی طرف سے سفیدی پھیر دے۔ وہ سنت رسول کے مطابق سیئہ کو حسنہ کے ذریعہ مٹا دے۔