اخلاقی حالت
ٹائم (۵ ستمبر ۱۹۸۸) میں ایک مضمون چھپا۔ اس معلوماتی مضمون کا موضوع کو ریا کی اقتصادیات(Korean economy) تھا ۔ اس مضمون میں کہا گیا تھا کہ کوریا کی کا ر ہونڈائی (Hyundai) کا انجن جاپان کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ بقیہ اجزاء کو اپنے یہاں تیار کر کے اس کو وہ کو ریا کی کار کے طور پر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ہیونڈائی موٹر کمپنی (سیول) کے جنرل منیجر ڈونگ مان کم (Dong Man Kim) نےٹائم کو ایک تردیدی خط لکھا جس میں کہا گیا تھا :
I would like to invite you to our Ulsan plant to see how we manufacture our own engines.
یعنی ہم آپ کو اپنے کارخانہ واقع اُلسان میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ وہاں آکر دیکھیں کہ ہم کسی طرح اپنے انجن خود تیار کرتے ہیں۔ جنرل مینجر کا یہ خط نہ صرف ایک چیلنج تھا بلکہ وہ ٹائم کی رپورٹ کو خلاف واقعہ قرار دے رہا تھا۔ اس کے باوجو د ٹائم نے اس کو اپنے شمارہ ۲۴ اکتوبر میں مِن وعَن شائع کیا ۔
یہ موجودہ دنیا کے "بے دینوں " کا حال ہے ۔ دوسری طرف دین داروں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک شخص کے بارے میں سراسر خلاف واقعہ بات چھاپیں گے۔ اور جب اس کی تردید کی جائے گی تو وہ ہرگز تردید کو شائع نہ کریں گے ۔ وہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے شخص مذکور پر جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیں گے ۔ ایک غلطی کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مزید شدید تر غلطیاں کرتے چلے جائیں گے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں ، خاص طور پر نام نہاد دین دار طبقہ کے بارے میں مجھے اس طرح کے تجربات کثرت سے ہوئے ہیں۔ حتی کہ میں اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ کم از کم اخلاق و کردار کے اعتبار سے بدنام بے دین معروف دین داروں سے زیادہ دین دار ہیں ۔
کسی قوم کی اصل طاقت اس کا اخلاق ہے۔ قوم کے افراد اخلاق وکردار کے جس رویہ پر ہوں گے،اسی درجہ کی کامیابی اسے حاصل ہوگی۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ ۔ اس میں ایک قوم یا دوسری قوم کی کوئی تفریق نہیں ۔ یہ اصول مسلمانوں پر بھی اتنا ہی چسپاں ہوتا ہے جتنا غیر مسلمانوں پر۔ یہ ایسا آفاقی اصول ہے جس میں کوئی استثناء نہیں ۔