مُحسِن کشی کیوں

یکم دسمبر ۱۹۸۸ کو مسٹر کمال بی کام (علیگ) سے ملاقات ہوئی ۔ وہ دہلی میں بزنس کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بعض تلخ تجربات کی روشنی میں ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جس آدمی کے او پر احسان کیا جائے وہی بعد کو اپنا دشمن بن جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ عربی زبان میں ایک پرانا مثل ہے : اتق شرَّ من أحسنت إليه (اس آدمی کے شرسے بچو جس کے اوپر تم نے احسان کیا ہے ) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم دو ہزار سال سے لوگوں کو وہی تجربہ ہو رہاہے جس کا تجربہ آپ پر گزرا۔

پھر میں نے کہا کہ آدمی کے اندر سب سے زیادہ بڑھا ہوا جذ بہ خود پسندی کا جذبہ ہے۔ اسی خود پسندی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ کسی کا اعتراف نہیں کرتا ، وہ کسی کو اکنالج (Acknowledge) کرنا نہیں چاہتا۔ احسان فراموشی یا محسن کشی کی روش در اصل انسان کے اسی مزاج کا نتیجہ ہے۔

جب آپ کسی کے ساتھ احسان کرتے ہیں تو آپ اس کو کوئی چیز دیتے ہیں۔ یہاں اس کی پیدائشی فطرت زور کرتی ہے کہ وہ آپ سے ملی ہوئی چیز کو آپ کا عطیہ کہے۔ اس کا ضمیر بار بار اس کے لیے آواز دیتا ہے۔ مگر اس کی خود پسندی اس اعتراف پر راضی نہیں ہوتی۔

اب آدمی کے اندر ایک خاموش کش مکش شروع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف فطرت ہوتی ہے اور دوسری طرف انانیت ۔ آخر کار آدمی کا سرکش دماغ اس کا ایک حل نکال لیتا ہے۔ وہ آپ کو بد نام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ آپ کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑ کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے آپ بہت برے آدمی ہیں۔ بظاہر یہ بات وہ دوسروں سے کہہ رہا ہوتا ہے ۔ مگر در حقیقت اس کا مخاطب اس کی اپنی ذات ہوتی ہے، اس طرح وہ اپنی فطرت کی آواز کو یہ کہہ کر دبا تا ہے کہ وہ تو بہت براآدمی ہے ، وہ اس قابل نہیں کہ اس کی کسی خوبی کا اعتراف کیا جائے۔

 نفسیات کی زبان میں اس روش کو خود فریبی (Self-deception) کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ایسے لوگوں کی بابت ارشاد ہوا ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں ، اپنے سوا کسی اور کو نہیں (وما يخدعون إلا أنفسهم)

یہ کہنا کہ فلاں آدمی نے میرے ساتھ احسان کیا ہے ، گویا یہ کہنا ہے کہ وہ بڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں۔ کسی کے احسان کو ماننا، اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو چھوٹا کرلینے کے ہم معنی ہے۔ چونکہ آدمی اپنے کو چھوٹا کرنے پر راضی نہیں ہوتا اس لیے وہ بر عکس طور پر یہ کرتا ہے کہ دوسرے کو چھوٹا کرنےمیں مصروف ہو جاتا ہے ۔

ایک بزرگ سے کہا گیا کہ فلاں آدمی آپ کی برائی کرتا ہے۔ بزرگ نے کہا کہ نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ میں نے اس کے ساتھ کوئی احسان نہیں کیا ہے ۔

 بزرگ کا یہ قول بہت بامعنی ہے۔ جب آپ کسی کے ساتھ ایک احسان کرتے ہیں تو آپ اس کو ایک چیز دیتے ہیں۔ اب اس آدمی کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ یہ چیز آپ کی دین ہے ، وہ اس کو آپ کے ذریعہ سے ملی ہے۔

 مگر اس قسم کے اعتراف سے آدمی کی انا پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ آپ کی بڑائی کو ماننا ہے، اورکسی دوسرے کی بڑائی کو ماننا آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وہ نفسیاتی پیچیدگی ہے جو آدمی کو اس طرف لے جاتی ہے کہ وہ اپنے محسن کی برائی کرنا شروع کر دے ۔ ایسا کر کے گویا وہ اپنی بڑائی کے احساس کو محفوظ رکھتا ہے ۔ اس طرح وہ ظاہر کرتا ہے کہ جو چیز اس کے پاس ہے وہ اس کی اپنی لیاقت سے حاصل کی ہوئی چیز ہے نہ کہ کسی کے دینے سے اس کو ملی ہے۔

اس دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام دوسرے شخص کے کمال کا اعتراف ہے۔ دوسرے کا اعتراف ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ آدمی اپنی نفی کرنا نہیں چاہتا، اس لیے وہ دوسرےکا اعتراف بھی نہیں کرتا ۔

احسان کے واقعہ میں آدمی مزید ایک مشکل میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ دوسرے کا اعتراف نہ کرے تب بھی دوسرے کی دی ہوئی چیز جو اس کے پاس ہے ، وہ ہر وقت اس کو یاد دلاتی ہے کہ فلاں شخص تم سے بڑا ہے ، وہ تم کو دینے والا ہے اور تم اس سے پانے والے۔ اس نفسیاتی مسئلہ کی بنا پر آدمی محسن کے بارے میں چپ نہیں رہ سکتا ۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ یا تو ملی ہوئی چیز کو دوسرے کا عطیہ بتائے یا اپنا کارنامہ ثابت کرے ۔ یہاں وہ اپنی انا کو باقی رکھنے کی خاطر یہ تدبیر نکالتاہے کہ محسن کی برائی کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom