دین ِفطرت
ایک مسلمان جون پور سے اعظم گڑھ کے لیے روانہ ہوئے ۔ ٹیکسی میں ایک ہندو بھائی بھی تھے۔ ابتدائی تعارف کے بعد انھوں نے کہا : آپ لوگ تو پہلے ہندو تھے ، پھر آپ اپنے پرانے دھرم پر کیوں نہیں آجاتے ۔ مسلمان نے کہا کہ اسلام نے ہم کو تو حید دی ہے ، آپ ہمیں کیا دیں گے۔ اگر آپ ہمیں مورتی پوجا دیں ، تو اس کو تو آپ خود ہی چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام نے ہمیں سماجی برابری دی ہے۔ اس کے بدلے آپ ہمیں کیا دیں گے ۔ اگر آپ ہم کو ذات پات اور چھوت ا چھوت دیں، تو اس سے بھی آپ لوگ خود ہی برات کر رہے ہیں۔ ہندو بھائی یہ باتیں سن کر خاموش ہوگئے ۔
ایک مسلمان اپنے گھر کے سامنے بیٹھا ہو ا تھا۔ اتنے میں ایک شخص وہاں آیا ۔ اس نے کہا کہ میں گورکھپور کا ایک برہمن ہوں۔ میرے دل میں کئی سال سے ایک کھٹک ہے۔ میں نے بہت سے پنڈتوں اور پادریوں سے پوچھا۔ مگر مجھے اطمینان نہ ہو سکا ۔ میں اس تلاش میں ہوں کہ آدمی کے لیے نجات کا ذریعہ کیا ہے۔ مسلمان نے کہا کہ نجات کا راستہ ہے –––– خدا کو ایک ماننا ، آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کرنا، اور ان کے بتائے ہوئے راستہ کے مطابق آخرت کی فکرکرنا۔ برہمن نے کہا کہ میں اسلام کی ان تینوں ہی باتوں کو مانتا ہوں ۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں مغرب کی اذان ہوگئی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر کی آواز فضا میں گونجنے لگی ۔ مسلمان نے کہا کہ چلیے ، مسجد میں چل کر نماز پڑھ لیں ۔ انھوں نے کہا کہ میں کیسے نماز پڑھوں گا، میں تو ہندو ہوں ۔ مسلمان نے کہا کہ جب آپ اسلام کی ان تین بنیادی باتوں (توحید، رسالت، آخرت )کا اقرار کرتے ہیں تو آپ مسلم ہیں ۔ وہ راضی ہو گئے اور وضو کر کے مسلمان کے ساتھ مغرب کی نمازمیں شریک ہو گئے (ملی جمعیۃ ، ۱۵ اپریل ۱۹۸۹)
اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کس قدر سادہ مذہب ہے ۔ اسلام کی یہ سادگی ہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ اسلام اتنا زیادہ سادہ مذہب ہے کہ ہر مسلمان اس کو سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کے اوپر اس کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ وہ اتنا فطری مذہب ہے کہ کوئی بھی شخص جو اس کو خالی الذہن ہو کر سنے ، وہ فوراً اس کے دل کو اپیل کرے گا ۔
اسلام کے پھیلنے میں رکاوٹ صرف اس وقت ہوتی ہے جب کہ اسلام کو سننے اور سمجھنے کے لیے معتدل فضا باقی نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اگر اجنبیت حائل نہ ہو اور ان کے درمیان تناؤ کا ماحول ختم ہو جائے تو منظم تبلیغی کوششوں کے بغیر اپنے آپ تبلیغ ہونے لگے۔ دونوں فرقوں کے درمیان روزانہ کا عام میل جول ہی اسلام کی اشاعت کاذریعہ بن جائے۔
دوسرے مذاہب جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں ، ان میں عقائد اور عبادات کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ صرف اعلیٰ تربیت یافتہ (پنڈت اور پادری) ہی اس کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اسلام کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام ایک انتہائی سادہ اور کامل طور پر ایک فطری مذہب ہے ۔ اس لیے ہر مسلمان اس کی تبلیغ کر سکتا ہے ، ہر مسلمان اس کی اشاعت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہزاروں لوگ جو ہر روز دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام قبول کرتے رہتے ہیں ، ان کا معاملہ زیادہ تر یہی ہے ، وہ کسی تربیت یافتہ مبلغ کی تبلیغ سے اسلام میں داخل نہیں ہوتے ۔ بلکہ بیشتر حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے میل جول کے درمیان انہیں اسلام کی کسی تعلیم کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس سے ان کے اندر تلاش کا جذبہ جاگتا ہے۔ اس کے بعد وہ قرآن یا دوسری اسلامی کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مزید متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔
روسناتوری (Rosanna Da La Torre)ایک امریکی خاتون ہیں ۔ انھوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ پہلے وہ ایک فیشن پسند لڑکی تھیں ۔ مگر اب وہ اسلامی طریقہ کے مطابق با حجاب زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے قبولِ اسلام کے بارے میں ان کا ایک خط امریکی مسلمانوں کے جریدہ اسلامک ہورائزن (Islamic Horizons) کے شمارہ دسمبر ۱۹۸۸ میں شائع ہوا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ میں کیلی فورنیا کی ایک کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی ۔ میرے والدین بچپن سے مجھ کو چرچ لے جاتے تھے۔ وہاں میں دیکھتی تھی کہ لوگ مسیح کے اسٹیچو کے آگے جھک رہے ہیں۔ مگر میرا دل کبھی اس پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ اسٹیچو کےاندر خدا ہے :
I did not associate deity to a statue.
اس بنا پر میرے اور میرے خاندان کے درمیان ایک کشمکش جاری رہتی تھی ۔ تاہم میرا تلاش کا جذ بہ ختم نہیں ہوا۔ میں نے مسیحیت اور دوسرے مذہبوں کا مطالعہ شروع کیا ۔ مگر مجھے اطمینان حاصل نہ ہو سکا۔ اس وقت تک مجھے اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اس کے بعد ایک چھوٹا ساواقعہ ہوا۔
ابوظبی (عرب امارات) کی ایک مسلم خاتون علاج کے لیے لاس انجلیز آئیں ۔ اس دوران میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو انھوں نے دعوت دی کہ میں بھی ان کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے ابو ظبی چلوں۔ اس طرح میں امریکہ سے ابو ظبی پہونچی ۔ وہاں ایک روز میرے کان میں ایک نئی آوازآئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ "اذان "ہے ۔
موذن بلند آواز سے پکا ررہا تھا : اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے( اللہ اکبر اللہ اکبر)اس نئی آواز نے خاتون کو اپنی طرف کھینچ لیا۔چرچ کے اندر انھوں نے دیکھا تھا کہ خدا ایک محدود اسٹیچو کے روپ میں رکھا ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ مسیحی چرچ یہ کہہ رہا تھا کہ خدا چھوٹا ہے۔ یہاں یہ اعلان سنائی دیا کہ خدا بڑا ہے۔ امریکی خاتون کو چرچ کی بات غیر معقول اور خلاف واقعہ محسوس ہو رہی تھی ، اس کے مقابلہ میں مسجد کی بات پوری طرح معقول اور مطابق واقعہ نظر آئی۔ چرچ کا پیغام انھیں متاثر نہ کر سکا تھا، مگر مسجد کا پیغام ان کی فطرت کی آوازبن کر ان کے سینے میں اتر گیا ۔
اس تاثر کے تحت جب مؤذن نے پکارتے ہوئے کہا کہ آؤ فلاح کی طرف (حی علی الفلاح) تو امریکی خاتون کو ایسا محسوس ہوا جیسے خدا ان سے مخاطب ہو کر یہ کہہ رہا ہو کہ روسنا، میری طرف آؤ، کیوں کہ میں ہی وہ سچائی ہوں جس کی تمہیں تلاش ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اذان کا پیغام نہایت طاقت ور تھا، وہ بجلی کی کوند کی طرح میرے دل پر اثر کر گیا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ابتداءً میرے اندر اسلام سے دل چسپی پیدا کردی :
The message of the Adhan was powerful. It hit my heart like a bolt of lightening. This is what sparked my interest in Islam (p. 4).
خاتون موصوف لکھتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے اسلامی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا۔ اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اور قرآن کا مطالعہ کیا ۔ الحمد للہ ، اللہ نے مجھے اسلام کی نعمت بخشی۔ میری پیاس آخری طور پر بجھ گئی ۔ زندگی کے بارے میں میرا پورا نقطہ ٔنظر بدل گیا ۔ اب مجھے پوری طرح سکون اور خوشی حاصل ہے۔
اسلام اپنی ذات میں تبلیغ ہے ۔ وہ خود بخود لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اگر مسلمان یک طرفہ صبر کے ذریعہ نفرت اور تناؤکی فضا کوختم کر دیں تو کسی رسمی تبلیغ کے بغیر اسلام لوگوں کے اندر نفوذ کرنا شروع کر دے گا۔