السلام عليكم
اسلام میں زندگی کے جو آداب بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب دو آدمی آپس میں ملیں تو وہ ایک دوسرے کو سلام کریں۔ یعنی ایک شخص کہے کہ السلام عليكم (تمہارے اوپر سلامتی ہو) اس کے بعد دوسرا شخص جواب میں کہے : وعليكم السلام (تمہارے اوپربھی سلامتی ہو)
سلام کا یہ کلمہ ایک قسم کی دعا ہے ۔ ایک مومن کے دل میں دوسرے مومن کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتا ہے۔ یہ جذبہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتارہتا ہے۔ ان میں سے ایک مذکورہ سلام کا طریقہ ہے۔ سلام کی بہترین تشریح وہ ہے جو ابن عیینہ سے نقل کی گئی ہے ۔ انھوں نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ سلام کیا ہے۔ سلام کرنے والا دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ تم مجھ سے محفوظ ہو (ھل تدري ما السلام ، يقول انت أٰمن منى)
سلام کی یہ تشریح بہت با معنی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ہر اعتبار سے تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ میری طرف سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ میں تمہارے لیے کوئی مسئلہ پیدا کرنے والا نہیں۔
تم سے میری گفتگو ہو تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا کہ میں تم سے بد کلامی کرنے لگوں۔ تمہارےساتھ میرا کوئی لین دین ہو تو میں تمہارے ساتھ غصب اور خیانت کا معاملہ نہیں کروں گا۔ بلکہ تمہارا جو حق ہے ، اس کو انصاف اور دیانت کے ساتھ پورا پورا ادا کروں گا۔ تمہارے خلاف اگر مجھے کوئی شکایت ہو جائے تب بھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں عدل کے راستہ سے ہٹ جاؤں اور تمہارا دشمن بن کر تمہاری جڑ کاٹنے لگوں۔ تم سے اگر مجھے کوئی اختلاف ہو تو میں اس اختلاف کو جائز تنقید کے دائرہ میں رکھوں گا، میں اس کو عیب جوئی، الزام تراشی اور کردار کشی کی حد تک ہرگز نہیں لے جاؤں گا۔
السلام علیکم کوئی رسمی کلمہ نہیں، وہ با اصول زندگی گزارنے کا ایک عہد ہے۔ السلام علیکم کہنے والا گویا اس بات کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ روزہ مرہ کی زندگی میں اس کا سلوک دوسروں کے ساتھ کیسا ہوگا۔ وہ سلامتی اور خیر خواہی کا ہو گا نہ کہ بے امنی اور بد خواہی کا ۔