امت كا امتحان
پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كا مشن دعوت الى الله كا مشن تھا۔اس كام كي مطلوب انجام دهي كے ليے آپ كو يه حكم دياگيا كه آپ هرگز رُكُون نه كريں۔ اس سلسله ميں قرآن كي آيت يه هے: وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (11:113)۔ یعنی اور ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاؤ گے۔
ركون كے معني هيں جھكاؤ (tilt)، الگ ہونا۔ یعنی قوم كے تقاضے، لوگوں كا دباؤ، حالات كي مصلحت، اس قسم كي مختلف چيزيں داعي كے اندر رُكون (دعوت سے دوری)كا ذهن پيدا كرتي هيں۔ ليكن پيغمبر كو سختي كے ساتھ حكم تھا كه وه كسي بھي دباؤ كا اثر قبول نه كرے۔وه سختي كے ساتھ دعوت كے بتائے هوئے اصولوں پر قائم رهتے هوئے اپنا دعوتي مشن جاري ركھے، وہ حالات کے اثر سے جھکاؤکا شکارنہ ہو۔
دعوت كے مشن ميں استقامت كا يه اصول جس طرح پيغمبر كے ليے تھا اسي طرح پيغمبر كي امت كے ليے بھي هے۔ اس معامله ميں امت اپنے پيغمبر كي نمائنده هے اور نمائنده كو يه حق نهيں هوتا كه وه اس معامله ميں كسي بھي جھكاؤ كو قبو ل كركے اصل مشن ميں كسي قسم كي تبديلي كرے۔ اگر وه تبديلي كا ارتكاب كرے تو اس كے ليے بھي يقيني طورپر اسي پكڑ كا انديشه هے جس كا ذكر اوپر كي آيت ميں پيغمبر كے ليے كياگيا۔دعوت الي الله كے كام كے ليے يه لازمي شرط هے۔ اس شرط كے بغير دعوت الي الله كا كام درست طور پر انجام نهيں ديا جاسكتا،اور جب دعوت الي الله كا كام درست طور پر انجام نه ديا جائے تو وه مقصد ادا نهيں هوتا جو دعوت الي الله كا مطلوب هے، يعني قوموں پر الله كي حجت ادا نهيں هوتي (النساء ، 4:165)۔
دعوت الي الله كا كام ايك مختلف نوعيت كا كام هے۔ اس ميں دوسرے تمام تقاضوں كو الگ ركھنا پڑتا هے۔ مثلاً قومي تقاضے، مادي تقاضے، عوامي تقاضے، وغيره۔ ان تقاضوں سے بچتے هوئے دعوت كاكام كرنا بلا شبه ايك سخت كام هے۔ ليكن امت كو هر حال ميں يه كرنا هے كه وه دوسرے تمام تقاضوں كا اثر قبول نه كرتے هوئے اس خدائي مشن كو جاري ركھے۔ يهي امت كا امتحان هے۔ اس امتحان ميں پورا هونا امت محمدي كو امت محمدي بناتا هے اور اگر امت اس امتحان ميں ناكام رهے تو خود يه امر مشتبه هوجائے گا كه وه الله كےيهاں امت محمدي كي حيثيت سے قبول كي جائے گي يا نهيں۔