آفاقی معرفت
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (41:53)۔ یعنی مستقبل میں ہم ان کو دکھائیں گےاپنی نشانیاں، آفاق میں اورانفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔
قرآن کی اس آیت میںمستقبل میں پیش آنے والے ایک واقعے کی خبر دی گئی ہے۔یہ وہی چیز ہے، جس کو تاریخ میں ایج آف ریزن (age of reason) کہا جاتا ہے۔یعنی قرآن سے پہلے جو دور تھا، وہ ایسا دور تھا، جس میں سننے اور ماننے کی بنیاد پر ایمان کو قبول کیا جاتاتھا۔ لیکن قرآن کے بعد وہ دور آنے والا تھا، جو عقلی طرز فکر کا دور ہوگا۔ اس دور میں ریزن کی بنیاد پر ایمان کو مانا جائے گا۔
کائنات میں غور و فکر کرنا اس حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ کائنات(universe) خالق کے لیے اپنا ثبوت آپ ہے۔ کائنات میں فطرت کے جن حقائق کو بیان کیا گیا تھا، وہ بعد کے مطالعے کے ذریعے عین ثابت شدہ حقیقت بن گئی ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں مستقبل کے ایک واقعے کی پیشگی خبر دی گئی ہے۔ جب یہ واقعہ ظاہر ہوگا تو قرآن کا دعویٰ آخری طور پر ثابت ہوجائے گا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور انسان پر لازم ہے کہ وہ اس خالق کو مان کر دنیا میں اپنی زندگی گزارے۔ اس آیت کے نزول کے وقت یہ واقعہ پیش نہیں آیا تھا، وہ مستقبل میں ظاہر ہونے والا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کا یہ واقعہ کب اور کہاں ظاہر ہوگا۔ ہماری تفسیروں میں اس کا جواب نہیں ملتا۔ قرآن کے قاری پر لازم ہے کہ وہ مستقبل کے اس واقعے کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
غور کیا جائے تو مغرب میں پیدا ہونے والی طبیعیاتی سائنس اس سوال کا جواب ہے۔ آئن اسٹائن نے کہا ہے کہ گلیلیو گلیلی طبیعیاتی سائنس کا فادر (father of modern science) ہے، یعنی اس سائنس کا آغاز کرنے والا۔ سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ آغاز گلیلیو گلیلی(1564-1642ء) کی دریافت سے ہوا ۔ اس سے پہلے بطور واقعہ(potentially) سائنس موجود تھی۔ لیکن اب تک وہ انسان کے علم میں نہیں آئی تھی۔ گلیلیو کے زمانے میں سائنس کا علم ڈیولپ ہوا۔ اس کے بعد پہلی بار دوربینی مطالعہ کے ذریعے انسان نے شمسی نظام (solar system)کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ دوربینی مطالعے کے ذریعے پہلی بار انسان نے یہ جانا کہ سورج سولر سسٹم کا مرکز ہے۔ زمین سولر سسٹم کا مرکز نہیں ہے، جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔
حدیث میں کہا گیا ہے کہ اللہ فاجر (سیکولر) انسان کے ذریعے دین کی مدد کرے گا (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1096)۔ میرے اندازے کے مطابق، جدید دور میں یہ سیکولر انسان غالباً گلیلیو گلیلی ہے۔ گلیلیو گلیلی نے دوربین کے ذریعے نظام شمسی کا مطالعہ کیا تو یہ حقیقت دریافت ہوئی کہ شمسی نظام سورج مرکزی ہے، نہ کہ زمین مرکزی۔ اس دریافت کے بعد فلکیاتی علم میں ایک نیا انقلابی دور آیا۔غالباً یہ اٹلی کا سائنس داںگلیلیو گلیلی تھا، جس کے بعد فلکیاتی مشاہدے کا دروازہ کھلا۔
اسی طرح سے برٹش سائنس داں نیوٹن (1643-1727ء) کے ذریعے سائنسی مطالعے کا سفر مزید آگےبڑھا۔ اس قسم کے تمام سائنس داں بظاہر قرآن کی مذکورہ آیت کی تائید کرتے ہیں۔ کائنات کا یہ طریقِ مطالعہ جو شروع ہوا، اس کو سائنسی مطالعہ کہا جاتا ہے۔اس کے بعد ہی وہ دور آیا، جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے۔ اسی مطالعے کے ذریعےاعلی سطح پر آفاق اور انفس کی نشانیوں (دلائل الٰہی) کا اظہارہوا، جس کی پیشین گوئی قرآن میں کی گئی تھی (فصلت، 41:53)۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا عیسوی کیلنڈر کے مطابق 609 میں ہوئی۔ تقریباً اسی زمانے میں یورپ میں ایک اور عمل شروع ہوا، جس کانقطہ انتہا (culmination)یہ تھا کہ انگریزی زبان دنیا کی انٹرنیشنل زبان بن جائے، اور کائنات میں بالقوۃ موجود نشانیاں سائنسی تحقیق کے ذریعے سامنے آجائیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اس آفاقی معرفت کا ظہور عملاً واقع ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ اس کو دریافت کیا جائے، اوراس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔