مومن، متواضع انسان
روایت میں آتا ہے کہ عمر فاروق نے اپنے آخری وقت میں یہ کلمہ کہا تھا: أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ قَالَ:آخِرُ كَلِمَةٍ قَالَهَا عُمَرُ حَتَّى قَضَى:وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي. وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي. وَيْلِي وَوَيْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ يَغْفِرِ اللهُ لِي (الطبقات الکبریٰ، جلد3، صفحہ275)۔ یعنی ابان ، اپنے باپ عثمان بن عفان سے روایت کرتے ہیں ، آخری کلمہ، جو حضرت عمر فاروق نے اپنے آخری وقت میں کہا تھا: بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کے لیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔ بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کےلیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔ بربادی ہے میرے لیے ، اوربربادی ہے میری ماں کے لیے ، اگر اللہ نے میری مغفرت نہ کی۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اکثر صحابہ کا یہی احساس تھا۔ وہ اپنے بارے میں اسی قسم کے الفاظ بولتے تھے۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مومن آخری حد تک متواضع انسان ہوتا ہے۔ اللہ کی عظمت کا احساس اس پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے کچھ اور اللہ کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کیس سراپا عجز کا کیس ہے، اور اس کے مقابلے میں اللہ رب العالمین کا کیس سراپا قدرت ۔ اللہ رب العالمین دینے والا ہے، اور انسان اس کے مقابلے میں صرف پانے والا۔ اللہ رب العالمین پورے معنوں میں ایک کامل ہستی ہے، اس کے مقابلے میں انسان غیر کامل ہستی۔
اس قسم کی سوچ مومن کو ایک مختلف انسان بنادیتی ہے۔ وہ اللہ رب العالمین کے ذکر و دعا میں جینے والا بن جاتاہے۔ ایک مومن کی اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے اندریہ احساس ڈیولپ کرے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (35:15)۔ یعنی اے لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بےنیاز ہے، تعریف والا ہے۔ یہ کیفیت جب انسان پر غالب آجائے، تو اس کا وہی حال ہوتا ہے، جس کی تصویر ہم کو اصحابِ رسول کے یہاں نظر آتی ہے۔