زوال کا ظاہرہ
مومن کون ہے ۔ قرآن کےمطابق، مومن وہ ہے جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کی ہیبت سے بندۂ مومن کا دِل دہل اُٹھے ۔ جب اس کو قرآن کی آیتیں سنائی جائیں تو اس کو اضافۂ ایمان کی غذا ملنے لگے ۔ اس کے لیے خدا ایک ایسی لازوال ہستی بن جائے جس پر وہ کامل بھروسہ کر سکتا ہو (8:2)۔ ایمان ، خدا اور بندے کا مقامِ اتصال ہے ۔ اس اتصال (communion) کا حقیقی طور پر وقوع میں آنا ہی ان کیفیات کے ظہور میں آنے کی یقینی ضمانت ہے ۔ پاور ہاؤس اور بلب کا ملاپ اگر نتیجہ پیدا کیے بغیر نہیں رہتا تو خدا اور بندے کا ملاپ کیوں کر نتیجہ سے خالی رہ جائے گا۔
مگر موجودہ زمانہ میں اسلام کی ایسی عجیب وغریب قسم وجود میں آئی ہے جس میں سب کچھ نظر آتا ہے مگر وہی چیز نہیں جس کو حقیقتاً ’’اسلام‘‘ کہا گیا ہے ۔ ہمارے زمانے کے عجائب میں یہ عجو بہ سب سے زیادہ حیرت ناک ہے کہ ہر طرف اسلام کی دھوم مچی ہوئی ہے ، مگر حقیقی اسلام کا کہیں وجود نہیں — نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ، مگر ’’صلاۃِ خشوع ‘‘سے مسجدیں خالی ہیں ۔ اسلامی مدرسوں کی عمارتیں بلند ہو رہی ہیں مگر وہ لوگ نہیں پیدا ہو رہے ہیں جو اپنی زندگیوں میں بھی اسلام کی تعمیر کی ضرورت محسو س کرتے ہوں ۔ اسلام کے نعروں سے فضائیں گونج رہی ہیں مگر اس اسلام کا وجود نہیں جو تنہائیوں میں آدمی کو خدا کی یاد میں بے چین کر دے ۔ دوسروں کی پیٹھ پر اسلام کے نام پر کوڑے لگ رہے ہیں مگر اپنی ’’پیٹھ ‘‘ کو خدا کے حوالے کرنے والا کوئی نہیں ۔ اسلامی تقریروں کی بہار آرہی ہے مگر خدا کی زمین ایسے لوگوں سے خالی ہے جن کو خدا کے خوف نے بے زبان کر رکھا ہو ۔ ’’احتسابِ کائنات‘‘ کے ہنگامے ہرطرف برپاہیں مگر احتسابِ نفس کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوتی ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے جسم سے اس کی روح نکال دی گئی ہے ۔ اور خود ساختہ طور پر اسلام کا ایسا ایڈیشن تیار کر لیا گیا ہے جو بظاہر اسلام ہے مگر وہی چیز اس میں موجود نہیں جو خدا اور رسول کے نزدیک اسلام کا اصل مقصود تھی ۔
اس کو سمجھنے کے لیے یہود کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے ۔ کیوں کہ جو قومیں کتاب الٰہی کی حامل ہوں ، ان کے بگاڑ کے اسباب ہمیشہ یکساں ہوتے ہیں ۔ یہود کی بابت قرآن میں کہا گیا ہے کہ بعد کے دور میں ان کے اندر قساوت (سخت دلی ) آگئی(2:74)۔ قساوت کی حالت یہ نہیں ہے کہ دین اپنی صورت کے اعتبار سے باقی نہ رہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ دین کی صورتیں ہمیشہ مکمل طور پر باقی رہتی ہیں البتہ قوم کے اندر سے ان کی روح نکل جاتی ہے ۔قرآن کے مطابق، قساوت دراصل ذکر اورخشیت کے خاتمہ کا نام ہے (39:22-23)،نہ کہ ظواہرِ دین کے خاتمہ کا ۔
قوم کے اندر یہ بگاڑ انکارِ دین کے نام پر نہیں آتا ، بلکہ اقرارِ دین کےساتھ آتا ہے ۔ قرآن کے بیان کے مطابق شیطان ان کو ایسی ایسی تاویلات سمجھاتا ہے جس کی روشنی میں ان کو اپنا انحراف حقیقی دین نظر آنے لگے، اور حقیقی دین بے دینی ۔ وہ اپنے اعمال کو خوبصورت الفاظ میں بیان کر کے اس کو اپنے لیے مزین کر لیتے ہیں (فاطر، 35:8) ۔اس تزئین کی سب سے زیادہ معروف صورت وہ ہے جس کو قرآن میں يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (5:13)فرمایا گیا ہے۔ یعنی، کلام میں تحریف (distortion) کرنا ۔ کلام کو اس کے محل سے پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ کلام کا ایسا مطلب ومعنی بیان کیا جائے جو متکلم کی مرادنہ ہو ۔ گویا یہود کی تزئین یہ تھی کہ وہ اپنی قساوت ، باالفاظ دیگر اپنی بے روح دین داری کو لفظی تاویلات سے ایسا خوش نما بنا لیتے تھے کہ وہی اصل دین نظر آنے لگے ۔
تحریف (لفظ کو اس کے موقع ومحل سے پھیرنے )کی صور ت عام طور پر وہی ہوتی ہے جس کو موجودہ زمانہ میں غلط تعبیر (misinterpretation) کہا جاتا ہے ۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے ۔ یہود کو یہ خبر دی گئی تھی کہ تم کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دی گئی ہے (البقرہ، 2:47)۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے تم کو دنیا میں اپنی نمائندگی کے لیے چن لیا ہے۔یعنی تم کو اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تم خدائی تعلیمات کے حامل بنو اور اس کو خدا کی طرف سے دوسری اقوام تک پہنچاؤ۔ اپنے اصل مفہوم میں یہ فضیلت بر بنائے ذمہ داری تھی ۔ مگر یہود نے اس کو نسلی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ یہود کی نسل میں پیدا ہونا اس بات کے لیے کافی بن گیا کہ آدمی اس فضیلت کا مستحق ہو اور خدا کے انعامات اس کو حاصل ہوں ۔ اس تحریفکو قرآن میں ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے: وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوۡ نَصَٰرَىٰ تَهۡتَدُواْۗ قُلۡ بَلۡ مِلَّةَ إِبۡرَٰهِـۧمَ حَنِيفًاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ (2:135)۔ یعنی، وہ کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو ہدایت یاب ہو جاؤ گے ۔ کہہ دو نہیں ۔ بلکہ ہم پیروی کرتے ہیں دینِ ابراہیم کی اور وہ شرک کرنے والوں میں نہ تھا۔
گویا ملتِ ابراہیمی کا فرد وہ ہے جو شرک سے اپنے کو بچائے اور سچی توحید پر قائم ہو ۔ محض نسل ابراہیمی میں ہونے سے کوئی ملتِ ابراہیمی کا فرد نہیں بن جاتا۔ یہود کو جو ’’فضیلت ‘‘ دی گئی وہ اپنے اصل مفہوم میں ایک سنگین ذمہ داری کو یاد دلانے والی چیز تھی مگر موقع ومحل سے ہٹانے کے بعد وہ بے خوفی کا محرک بن گئی۔ اللہ کا ایک حکم جو خشیت پیدا کرنے کا سبب بنتا ، وہ قساوت پیدا کرنے والا بن گیا— یہ تھی یہود کی تحریف ۔ اپنی اس قسم کی تحریفوں کے ذریعہ انہوں نے دینِ خداوندی کو ایک بے روح ڈھانچہ بنا کر رکھ دیا تھا۔
حدیث رسول میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ مسلمان ضرور پچھلی امتوں کے طریقوں کا اتباع کریں گے۔ قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو یہ امت بھی وہاں داخل ہوجائے گی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7320)۔ چنانچہ مسلمانوں میں آج وہ سارے انحراف دیکھے جاسکتے ہیں جو سابق اہلِ کتاب میں پائے جاتے تھے ۔ جس طرح یہود نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اللہ کے خصوصی بندے ہیں اور وہ ضرور نجات پائیں گے ۔ اسی طرح ہم نے بھي یہ عقید ہ قائم کر لیا کہ — مسلمان خیر امت ہیں اور وہ سب کے سب مرحوم ومغفور ہیں ۔
یہ بات بجائے خود صد فیصد درست ہے مگر وہ مسلم امت کے بارے میں ہے، نہ کہ کسی مسلم نسل کے بارے میں ۔ امت کو نسل کے معنی میں لینا بلا شبہ يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ (4:46) کا مصداق ہے، یعنی کلام کواس کے اصل منشا سےبدل دینا۔ اپنے نظریاتی مفہوم میں یہ بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے ۔ مگر جب اس کو نسلی مفہوم میں لیا گیا تو وہ صرف قلبی قساوت اور بےخوفی کا محرک بن کر رہ گئی — اسلام کا نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو تربیت دے کر اس قابل بنائے کہ وہ اپنی ذاتی فکر (self-thinking) کے ذریعہ اپنے اندر مطلوب ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔