امت کا زوال
موجودہ زمانے میں امت کے زوال کا اصل سبب یہ ہے کہ قرآن و حدیث ان کے لیے غیررہنما کتاب بن گئی ہے۔ آج کے مسلمانوں کے لیے قرآن بس ایک مقدس کتاب ہے۔ اور جہاں تک حدیث کا سوال ہے، حدیث ان کے لیے فقہی مسائل کا ماخذ ہے۔ مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب یہی ہے۔
قرآن میں کئی مقامات پر بتایا گیا ہے کہ رسول کو خدا نے کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے۔ یہ دونوں مسلمانوں کے لیے ابدی رہنمائی کا ذریعہ تھیں۔ لیکن مسلمانوں نے اپنے دورِ زوال میں ان دونوں کو اپنے لیے رہنما بنانے کے بجائے برکت اور جزئی فقہ کا ماخذ سمجھ لیا۔ اس معاملے میں مسلمانوں کا حال وہی ہوا، جو رسول اللہ نے پیشگی طور پر آگاہ کردیا تھا:تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 1874)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو پکڑے رہوگے، وہ دو چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
مگر بعدکے زمانے میں جب مسلمانوں نے کتاب و سنت کو ترک کردیا، تو اس کے بعد جو ہوا ، وہ یہ تھا کہ مسلمان حقیقی خدائی رہنمائی سے محروم ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اندھیروں میں بھٹک کر صراط مستقیم سے ڈی ریل (derail)ہوگئے۔ ان کا سفر مطلوب راستے پر ہونے کے بجائے غیر مطلوب راستے پرہونے لگا۔ مطلوب راستہ تھا، مثلاً خدا کی معرفت اور دعوت۔ مگر مسلمان اس راستے سے ہٹ کر دنیوی مسائل میں لگ گئے، اور دعوت کے بجائے مدعو کو اپنا دشمن قرار دے دیا۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ مسلمان اپنے دنیوی مفاد کے لیے اسلام کو استعمال کرنے لگے۔ مثلاً علیحدہ مسلم لینڈ (seprate Muslim land)کی لڑائی کو اسلام اور ایمان کے لیے جہاد کرنا قرار دے دیا۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو مذکورہ حدیث میں گمراہی کہا گیا ہے۔