تزکیہ کیا ہے
تزکیہ دراصل شخصیت کی دینی تعمیر کا دوسرا نام ہے۔ شخصیت کی تعمیر کا یہ عمل کسی خودساختہ کورس کے ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ قرآن و سنت کے طریقہ کو اختیار کرنے سے انجام پاتا ہے۔ تزکیہ کا لفظی مطلب ہے پاک کرنا (purification)۔ پاک کرنا کیا ہے، اس کا جواب ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی یا مجوسی (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
اس حدیث رسول میں یہودی ، نصرانی، اور مجوسی کا لفظ علامتی طور پر آیا ہے۔ اس سے مراد انسان کا پیدائشی ماحول ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہر آدمی ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماحول مسلسل طور پر اس کی کنڈیشننگ (conditioning)کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کو پورے معنوں میں ایک کنڈیشنڈ انسان بنا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی طرف سے آدمی فطرت (nature) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن پیدا ہونےکے بعد وہ اپنے ماحول سے متاثر ہونے لگتاہے۔ یہاں تک کہ جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جو انسان مسٹر نیچر کے طور پر پیدا ہوا تھا، وہ مسٹر کنڈیشنڈ انسان بن جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت وہ ایک سادہ انسان ہوتا ہے، لیکن بعد کو ماحول کے اثر سے وہ اپنے ماحول کی پیداوار (product) بن جاتا ہے۔
تزکیہ یہ ہے کہ آدمی اپنا نگراں آپ بن جائے۔وہ اپنے اندر خود احتسابی کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو ماحول کی کنڈیشننگ سے بچاکر اپنی اصل فطرت پر خود کو قائم رکھے۔ تزکیہ ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ آدمی کے اندر جب کوئی منفی سوچ آئے، جب وہ کسی بہکاوے (temptation) سے متاثر ہوکر فطرت کے راستے سے ہٹنے لگے تو اس کا داخلی محاسب فوراً اس کو چوکنا کردے، اور وہ دوبارہ اپنی فطرت کی طرف واپس آجائے۔ اسی عمل کا نام تزکیہ ہے، اور یہی عمل آدمی کو ابدی جنت کا مستحق انسان بناتا ہے(طٰہٰ، 20:76)۔