ڈائری 1986
11فروری 1986
آج تبلیغی جماعت کے کئی لوگ ملنے کے لیے آئے۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ سوچنے کے دو انداز ہیں۔ایک ہے خارجی انداز فکر اور دوسرا ہے داخلی انداز فکر۔
خارجی انداز فکر کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھیں۔مثلاً دوسروں کا تعصب،دوسروں کی سازش، دوسروں کی جارحیت وغیرہ۔جو لوگ اس طرح سوچیں ان کے لیے کام اپنے آپ سے باہر رہے گا۔وہ دوسروں کے خلاف احتجاج کریں گے۔وہ دوسروں سے مطالبات کریں گے۔چونکہ ان کے نزدیک مسئلہ اپنے آپ سے باہر پیدا ہوا ہے،اس لیے وہ باہر سے ہی حل ہو سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں داخلی اندازِ فکر کا مطلب اپنے مسائل کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھنا ہے۔اس دوسری صورت میں سارا معاملہ بدل جاتا ہے۔اب آپ کی ساری توجہ خود اپنی طرف لگ جاتی ہے۔
میں نے کہا کہ اس وقت جتنی بھی تحریکیں مسلمانوں میں چل رہی ہیں وہ سب خارجی انداز فکر پر چل رہی ہیں۔سب کی سب دوسروں کے خلاف مہم چلانے میںمصروف ہیں۔
اس عموم میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ تبلیغی جماعت کا ہے۔تبلیغی جماعت کا فکر یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل اللہ کے باب میں اپنی کوتاہی سے پیدا ہوئے ہیں۔اپنی کوتاہی کو درست کر لو تو خدا کی رحمت تمہاری طرف مائل ہوگی اور تمہارے تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔
میں نے کہا کہ میرے نزدیک یہی داخلی انداز فکرصحیح ہے۔اس اعتبار سے ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تبلیغ کے لوگ تقریر کی راہ سے کام کر رہے ہیں اور ہم تحریر کی راہ سے۔
12فروری 1986
آج میں نے ریڈرس ڈائجسٹ(فروری1986) پڑھا۔ریڈرس ڈائجسٹ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ خالی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی عبارتیں شائع کرتا ہے جس کو آج کل کی زبان میںفلر (filler)کہتے ہیں۔یہ عبارتیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر لوگوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
ریڈرس ڈائجسٹ کے مذکورہ شمارہ میں صفحہ152پر دو لائن کا ایک فلر حسب ذیل ہے:
Headline of an article on a controversial press censership bill —
‘‘THE RIGHT TO WRITE.’’
اس سرخی کااردو ترجمہ کریں تو وہ یہ ہوگا’’لکھنے کا حق‘‘۔اردو سرخی میں بظاہر کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی کہ ایک میگزین اس کو قیمت دے کر کسی سے خریدے اور اس کو اپنے ایک صفحہ میں بطور فلر استعمال کرے۔مگر انگریزی میں دیکھیے تو وہ ایک بے حد دلچسپ سرخی معلوم ہوتی ہے۔انگریزی الفاظ میں یہ سرخی اس قدر اچھوتی ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر فوراً اصل موضوع کو پڑھنا چاہے گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اردو زبان کوئی کمتر زبان ہے اور انگریزی زبان ایک برتر زبان۔یہ فرق تمام تر اتفاقی ہے۔عین ممکن ہے کہ ایک اور سرخی اردو زبان میں بہت بامعنیٰ نظر آئے مگر انگریزی میں ترجمہ ہو کر وہ اپنی ندرت کو کھو دے۔
یہی معاملہ ہر چیز کا ہے۔بعض خصوصیات حقیقی ہوتی ہیں اور بعض خصوصیات اتفاقی۔کسی چیز کے بارے میں صحیح رائے وہی لوگ قائم کر سکتے ہیں جو حقیقی اور اتفاقی کے فرق کو اچھی طرح جانتے ہوں۔
13فروری 1986
آج کل دہلی میں عالمی کتابی نمائش(ورلڈ بک فیئر) ہو رہی ہے۔آج میں نے اس کو دیکھا۔ مختلف ملکوں کے اسٹال بہت بڑے پیمانے پر لگائے گئے ہیں۔آدمی یہاں پندرہ زبانوں میں کتابیں حاصل کر سکتا ہے۔ایک حصہ میں مختلف مذہبی مشن کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ایک ہندو مشن کے اسٹال پر ایک کتاب نظر سے گزری۔اس کا ٹائٹل یہ تھا:
‘‘Bhagvad Gita: As It Is’’
یہ ٹائٹل مجھے بہت پسند آیا۔میں نے سوچا اسی انداز پر ایک کتاب اسلام کے بارے میں چھپنا چاہیے۔اس کا ٹائٹل حسب ذیل ہو:
‘‘Islam: As It Is’’
ان شاءاللہ، اس نام سے ایک کتاب شائع کی جائے گی۔اس کتاب کے چار حصے ہوں گے۔ پہلے حصہ میں قرآن کی منتخب آیتوں کا ترجمہ،دوسرے حصہ میںمنتخب احادیث کا ترجمہ،تیسرے حصہ میں رسول اللہ کے منتخب واقعات اور چوتھے حصے میں صحابہ کے منتخب واقعات۔
یہ سب چیزیں بغیر تشریح کے جمع کی جائیں۔اپنی طرف سے صرف مختصر عنوان کا اضافہ ہو۔ اسلام کے تعارف کے لیے، ان شاءاللہ، یہ ایک بہت مفید کتاب ثابت ہوگی۔
آج کل غیر مسلموں میں اسلام کے مطالعہ کا کافی رجحان پیدا ہوا ہے۔مگر وہ اسلام کو جیسا ہے ویسا ہی (as it is) پڑھنا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک ضرورت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث کے ترجمے شائع کیے جائیں۔دوسرا کام یہ ہے کہ اس انداز میں کچھ مختصر کتابیں تیار کی جائیں۔اس دوسرے کام کے ذیل میں ’’اسلام :ایز اٹ از‘‘ ان شاءاللہ، ایک مفید کتاب ثابت ہوگی۔
نمائش میں اسلامی مرکز کا بک اسٹال بھی لگا ہوا ہے۔یہاں کافی غیر مسلم آ رہے ہیں اور زیادہ تر وہ ترجمۂ قرآن مانگتے ہیں۔کچھ روسی بھی آئے اور انہوں نے روسی زبان میں قرآن کا ترجمہ طلب کیا۔
14فروی 1986
تذکیرالقرآن کے 26 پارے ہو گئے ہیں۔جب میں اس کو سوچتا ہوں تو یہ سب مجھے ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔تذکیر القرآن سب سے پہلے کسی قدر مختلف شکل میں الجمعیۃ ویکلی میں شروع ہوا۔مگر چند قسطوں کے بعد اس کا سلسلہ بند ہوگیا۔اس کے بعد الرسالہ میں اس کا سلسلہ موجودہ شکل میں شروع ہوا تو اس کو میں نے اپنی ہلاکت کی قیمت پر لکھا ہے۔اس کا ہر صفحہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اس کا اگلا صفحہ لکھنا مجھے نصیب نہ ہوگا۔
تذکیرالقرآن سے میرا لگاؤ اتنا زیادہ رہا ہے کہ اس رات کو جب کہ میراہاتھ بجلی کے جنکشن باکس میں تھا اور بجلی کی لہریں میرے جسم میںدوڑ رہی تھیں۔اس وقت بھی مجھے یہی فکر لاحق تھی کہ میرا تو آخر وقت آ گیا، اب تذکیرالقرآن کو کون مکمل کرے گا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، الرسالہ ، اکتوبر 1983 ،بعنوان : دوبارہ زمین پر)۔
آخرکار جب تذکیرالقرآن کے 10پارے ہو گئے تو مذکورہ بالانفسیات کی بنا پر مجھے محسوس ہوا کہ اب اس کی آخری حد آ گئی۔اب میں اس کے آگے کچھ نہ لکھ سکوں گا۔میں نے چاہا کہ میری زندگی ہی میں اس کی پہلی جلد چھپ جائے۔مگر اس وقت میرے پاس ضروری رقم موجود نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے عین اسی زمانے میں عزیزم شکیل احمد خاں کو دلی بھیجا۔ان کو جب معلوم ہوا کہ تذکیرالقرآن کی پہلی جلد چھپنے کے لیے تیار ہے تو وہ اس کی رقم فراہم کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔وہ فوراً کلکتہ گئے اور ہوائی جہاز سے واپس آکر 25ہزار روپے میرے حوالے کر دیا۔
اس کے بعد میری توقعات کے خلاف مزید 5پارے ہو گئے تو دوبارہ پہلی جلد15پاروں کے ساتھ چھاپی گئی۔اب خدا کے فضل سے26پارے ہو گئے ہیں اور کام تیزی سے جاری ہے۔ان شاء اللہ، امید ہے کہ 1986میں اس کی دوسری اور آخری جلد چھپ جائے گی۔کیونکہ تحریر کےساتھ اس کی کتابت کا کام بھی جاری ہے۔ایک کاتب مستقل طور پر صرف تذکیرالقرآن کی کتابت کر رہے ہیں۔
15فروری 1986
جناب عبدالرحمٰن انتولے(سابق چیف منسٹر مہاراشٹر) کا خط مورخہ 11فروری1986 کو موصول ہوا۔یہ چھ صفحات کا خط ہے۔ان کو حال میںاتفاق سے الرسالہ اردو کا شمارہ نمبر110 (جنوری 1986) اور 111(فروری 1986)ملا۔وہ اس سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے۔وہ لکھتے ہیں:
’’پوری طرح ہر لفظ کو باقاعدہ غور سے پڑھا۔لطف اندوز ہو کر ختم کیا۔زبان سے بے ساختہ سبحان اللہ نکل پڑا۔ اور دل نے اس زمانہ کا مجتہد پا لیا۔آپ کا قلم جہاد میں اور آپ کا دل ودماغ اجتہاد میں مشغول ہے۔پھر میں نے سوچا کہ اس قدر بڑی نعمت کو پانے میں میری زندگی کے تقریباً گیارہ مہینے صرف ہو گئے۔آپ کا انداز قرآنی ہے،پھر مخاطب کو سمجھنے میںپریشانی کیسے ہو۔حضرت مولانا ابوالکلام، حضرت مولانا مودودی اور حضرت مولانا وحیدالدین ۔پہلے کا انداز عالمانہ، دوسرے کا فاضلانہ اور تیسرے کا عاقلانہ۔اور کبھی بھی عالم ہو یا فاضل، بغیر عاقل ہوئے علم وفضل بے معنی ہیں‘‘۔
اگلے دن انتولے صاحب کے داماد آئے۔ان کے ساتھ مہاراشٹر کے سابق ہوم سکریٹری بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے وزیروں اور چیف منسٹروں کو دیکھا ہے مگر جو قوت اخذ (grasp)میں نے انتولے صاحب میں دیکھا وہ کسی کے اندر نہیں پایا۔ (جناب عبد الرحمن انتولے کا 2 دسمبر 2014 کو انتقال ہوچکا ہے)۔
16فروری 1986
مسٹر پریم نارائن گپتا آج مولانا حمیداللہ ندوی کےساتھ بھوپال سے دہلی آئے۔انہوں نے آتے ہی کہا: آج میں ایک سچے انسان سے ملنے کی خوشی حاصل کر رہا ہوں۔وہ الرسالہ اردو اور انگریزی پابندی سے پڑھ رہے ہیں اور بہت متاثر ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم مسائل پر آپ جس طرح لکھتے ہیں،اس کو مسلمان کیسے برداشت کرتے ہیں ؟اور آپ کو اس طرح لکھنے کی جرأت کیسے ہوتی ہے؟میں نے کہا کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں دلیل سے لکھتا ہوں اور جو شخص دلیل پکڑا ہوا ہو اس کی کاٹ کسی کے لیے ممکن نہیں۔
انہوں نے میری کتاب’’پیغمبرانقلاب‘‘ اور مولانا سیدسلیمان ندوی کی کتاب’’خطبات مدراس‘‘ حال میں پڑھی ہے۔خطبات مدراس ان کو پسند نہیں آئی۔کیوںکہ اس میں پیغمبر اسلام کو اس طرح پیش کیا گیا ہے گویاکہ وہ مسلمانوں کے قومی ہیرو ہیں۔اس کے برعکس، میری کتاب میں رسول اللہ ایک حقیقی عالمی پیغمبر کے روپ میں نظر آتے ہیں۔گپتا صاحب کو میں نے دو کتابیں بطور ہدیہ دیں: ایک’’اللہ اکبر‘‘ اور دوسری’’ حل یہاں ہے‘‘۔