قول سدید یا متعین کلام
قرآن میں ایک تعلیم ان الفاظ میں آئی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (33:70)۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔ کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے سدید کلام، دوسرا ہے غیر سدید کلام۔ جس طرح تیر ٹھیک نشانہ کی طرف رخ کرکے چلایا جاتا ہے، اسی طرح سدیدکلام ٹھیک حقیقت کو سامنے رکھ کر بولا جاتا ہے۔
سدید کلام وہ ہے جو عین مطابقِ حقیقت ہو۔ جو واقعاتی تجزیہ پر مبنی ہو۔ جو ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے۔وہ بات اصل حقیقت سے کچھ بھی ادھر یا اُدھر ہٹی ہوئی نہ ہو۔ اس کے برعکس، غیر سدید کلام وہ ہے جس میں حقیقت کی رعایت شامل نہ ہو۔ جس کی بنیاد ظن و گمان پر قائم ہو۔ جس کی حیثیت محض رائے زنی کی ہو، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کے اظہار کی۔آدمی کوئی بھی بات کہے، تو وہ بات تعین کی زبان (specific language) میں ہونی چاہیے۔
مثلاً اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ صحابہ کے دور میں جنگ صفین اور جنگ جمل کا واقعہ جو پیش آیا، وہ اسلام دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ تو یہ بیان، سدید بیان نہیں کہا جاسکتا ۔ اس لیے کہ اس میں متعین نہیں ہے کہ اسلام دشمن کون ہے، اور اس کی سازش کیا تھی، جو اس حد تک مؤثر ہوئی کہ اس وقت کے لوگ دو متحارب گروہ بن کر آپس میں لڑ گئے۔ یعنی اس میں تعین اور صراحت کی زبان استعمال نہیں کی گئی ہے۔ اس میں ثابت شدہ حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ بیان تمام تر فرضی قیاس پر مبنی ہے، نہ کہ پختہ علم پر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اللَّهُمَّ سَدِّدْ لِسَانِي( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3830) ۔اے اللہ، میری زبان کو قولِ سدید کی توفیق دے۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ قولِ سدید کی اسلام میں کتنی زیادہ اہمیت ہے۔اسلام کے آداب کلام میں یہ بات لازمی طو رپر شامل ہے کہ کسی امر کے متعلق جو بات کہی جائے، وہ تعین کی زبان میں ہو۔ وہ مناسب الفاظ (appropriate words) میں کہی گئی ہو۔ وہ بیان ایسے الفاظ میں ہو کہ کوئی شخص اگر اس کی تحقیق کرنا چاہے تو وہ بآسانی تحقیق کرکے اس کی صحت کو معلوم کرسکے۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے والے نے کہہ دیا، لیکن سننے والے کے لیے وہ ایک غیر واضح کلام کی حیثیت رکھتا ہو۔
کوئی کلام خواہ وہ دین کی بابت ہو، یا دنیا کی بابت۔ وہ ایسا ہونا چاہیے کہ سننے یا پڑھنے والا، مزید تحقیق کرکے اس کی اصلیت کو دریافت کرسکے۔ کلام میں ایسا حوالہ موجود ہو، جو کلام کی صحت کو مزید جانچنے کے لیے کافی ہو۔ کلام مشتبہ یا ایسے الفاظ پر مبنی نہ ہو، جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال پایا جائے، بلکہ ایسے الفاظ پر مبنی ہو، جو سامع کے لیے پہلے سے معلوم، اور متعین ہوں۔ جو اپنے معنی میں اتنا واضح ہو کہ سنتے ہی سمجھ میں آجائے۔
کلامِ سدید کے لیے یہ بات بھی لازمی طور پر ضروری ہے کہ اس میں جو بات بھی کہی جائے ، خواہ وہ منفی بات ہو یا مثبت بات ، اس میں کوئی ثابت شدہ مثال موجود ہو۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ بات تو کہہ دی جائے لیکن سننے والے کے سامنے کوئی متعین مثال نہ آئے جس کو لے کر وہ بات کی مزید تحقیق کرسکے۔ مثال کے بغیر ہر بات بے بنیاد بات ہے، اور بے بنیاد بات کبھی وہ بات نہیں ہوسکتی ، جس کو کلام سدید کہا جائے۔
مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے کی تھی۔ اس وقت کعبہ ایک مستطیل (rectangle) عمارت کی شکل میں تھا، اور اب بھی بدستور وہی صورت قائم ہے۔ تو یہ بات کلام سدید کی مثال نہ ہوگی۔ کیوں کہ اگر کوئی شخص جاکر اس کی تحقیق کرے تو وہ پائے گا کہ آج کا کعبہ مربع (Square) صورت میں ہے، اور اس کا ایک حصہ حطیم کی صورت میں خالی پڑا ہوا ہے۔ اس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ ابتدائی کعبہ مستطیل صورت میں تھا، اب وہ مربع صورت میں ہے۔ اب اگر کوئی شخص مکہ جاکر اس کی تصدیق کرنا چاہے تو وہ دریافت کرلے گا کہ یہ بیان درست ہے۔
اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلام سدید کیا ہے، اور کلام غیر سدید کیا۔ کلام سدید وہ ہے، جو قابل تصدیق (verifiable ) ہو۔ اس کے برعکس، کلام غیر سدید وہ ہے، جس کو ویری فائی (verify) نہ کیا جاسکے، جس میں سامع کے لیے یہ ممکن نہ ہو کہ وہ کلام کی تحقیق کرکے یقین کے ساتھ یہ جان سکے کہ کہنے والے نے جو کہا یا لکھنے والے نے جو کچھ لکھا، وہ مطابق واقعہ کلام ہے یا مطابق واقعہ کلام نہیں ہے۔