دریافت کی عظمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا واقعہ ہے۔ آپ کے چچا ابو طالب نے ایک بار آپ کو بلایا اور کہا کہ قوم کے ساتھ مصالحت کا انداز اختیار کرو۔اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:يَا عَمِّ ‌لَوْ ‌وُضِعَتِ ‌الشَّمْسُ فِي يَمِينِي وَالْقَمَرُ فِي يَسَارِي مَا تَرَكْتُ الْأَمْر (سیرۃ ابن اسحاق، صفحہ 154)۔ یعنی اے میرے چچا، اگر یہ لوگ ایسا کریں کہ وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور میرے بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں اِس کام کو نہیں چھوڑ وں گا۔

اِس واقعے سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ— جتنی بڑی دریافت، اتنی بڑی عزیمت (determination)۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ قول بھی ایک سنتِ رسول ہے۔ وہ ایک واقعے کی صورت میں ایک عظیم حقیقت کو بتاتا ہے، وہ یہ کہ ایک بڑی دریافت تمام دوسری چیزوں کو چھوٹا کردیتی ہے۔ ایسا آدمی کسی قسم کے رکون (ہود،11:113) کا تحمل نہیں کرسکتا۔

 اگر آدمی ایک ایسی حقیقت پر کھڑا ہوا ہو جو اس کے لیے سورج اور چاند سے بھی زیادہ بڑی ہے تو ہر دوسری چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہوجائے گی۔ ایسا آدمی کسی بھی عذر کو لے کر اپنے موقف کے معاملے میں مصالحت کا انداز اختیار نہیں کرسکتا۔اس کے برعکس، اگر آپ کسی شخص کے اندر یہ بات پائیں کہ وہ قوم کے اندر برائی دیکھتا ہے، لیکن وہ اپنے مادی انٹرسٹ کی بنا پر اس کی مذمت نہیں کرتا تو سمجھ لیجیے کہ اس کو دین کے نام پر جو چیز ملی ہے، وہ اس کے نزدیک عملاً اتنی اہم نہیں کہ مادی مصلحت اس کے لیے قربان کردی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom