تمام مسائل کا حل
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن انسانی زندگی کے تمام مسائل حل کرتا ہے۔ میں نے اس طرح کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں، اور تقریریں سنی ہیں۔ لیکن ان حضرات کی تقریروں اور تحریروں میں آج تک اس کا کوئی متعین حوالہ نہیں ملا۔ ان کے اصاغر و اکابر نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یہ تصور قرآن کی کس آیت سے ماخوذ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ صرف دعویٰ ہے، نہ کہ دلیل ۔ اسی طرح ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ دنیا کے وہ کون سے لوگ ہیں، جنھوں نے اپنے مسائل دنیوی کو قرآن کے ذریعے حل کیا ہو۔ کم سے کم میرے علم میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔
میری ملاقات ایک بار مصر کے ایک پروفیسر سے ہوئی، وہ الاخوان المسلمون کے سرگرم فرد تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ الاخوان المسلمون کے مشہور فرد سید قطب کی کتاب العدالۃ الاجتماعیة فی الاسلام (Social Justice in Islam) میں نے پڑھی ہے۔ اس میں سوشل جسٹس کا کوئی ڈھانچہ(well-structured system) نہیں بتایا گیا ہے۔ وہ مصری عربی اور انگریزی دونوں زبانیں جانتے تھے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوئی، لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ اس کتاب میں کوئی ویل اسٹرکچرڈ سسٹم واقعتاً موجود نہیں۔ انھوں نے میرے اس اظہار کی تائید کی کہ کتاب میں کچھ انفرادی واقعات کو لے کر ان کو اجتماعی نظام کے ہم معنی بنادیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان بجائے خود خلافِ واقعہ ہے کہ قرآن میں دنیوی مسائل کا حل موجود ہے۔ قرآن حیاتِ آخرت کے لیے ایک رہنما کتاب ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے دار الامتحان ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کس طرح زندگی گزارے کہ وہ آخرت کی دنیا میں فلاح یافتہ زندگی کا مالک بن جائے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا دارالامتحان ہے، اور آخرت کی دنیا دار الفلاح۔ یہ مسلمانوں کا خودساختہ طریقہ ہے کہ وہ فلاحِ دنیا کا ادارہ قائم کرتے ہیں، اور اس کا اسلامی نام رکھ دیتے ہیں۔