اولاد کی تربیت
جناب خورشید اکرم سوز (پیدائش 1965ء) ایک سنجیدہ اور دینی ذہن رکھنے والے انسان ہیں۔وہ ایک طویل مدت سے الرسالہ کے قاری ہیں۔ مولانا سے کئی مرتبہ ان کی ملاقات اورخط و کتابت رہی ہے۔فروری 2002کی بات ہے۔ انھوںنے خط کے ذریعے مولانا کو بتایا تھا کہ ’’میرا ایک ہی بیٹا ہے۔میں اپنے بیٹے کو مدرسہ کی تعلیم دینا چاہتا ہوں، اوردین کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔اس سلسلے میں آپ سے مشورہ درکار ہے‘‘ ۔
مولانا نے جوابی خط میں جو بات لکھی، وہ ہر ایک والدین کےلیے ایک رہنما نصیحت ہے۔ مولانا نے لکھا تھا کہ ’’خالق کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، آپ صرف اپنے بچے کی اچھی تربیت کرسکتے ہیں، مگر آپ اپنے جذبات کو اپنے بچے پر نافذ نہیں کرسکتے۔آپ کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے اور بچے کی زندگی کا مالک خدا ہے۔ بچہ، مال اور جائداد کی طرح وقف کرنے کی چیز نہیں ہے۔ وہ خود اپنی آزادی سے اپنا فیصلہ کرے گا جب وہ ہوش سنبھالے گا۔ اس وقت تک آپ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام فرمائیں اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی اچھے ادارے کا انتخاب فرمائیں‘‘ ۔
عام طور پر والدین اس فطری حقیقت کو نہیں سمجھتے ہیں۔ انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول یہ ہے: أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ(ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)۔ یعنی اپنی اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو زندگی کا بہتر طریقہ سکھائے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کے لیے بوجھ (liability) نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔تربیتِ اولاد کے تعلق سے انگریزی کا ایک قول ہے:
‘‘Parents can only give good advice or put them on the right path, but the final shaping of a person’s character lies in their own hands.’’
یعنی والدین اپنے بچوں کو اچھی نصیحت کرسکتے ہیں، یا درست راستے كي طرف رهنمائي كر سکتے ہیں، لیکن انساني شخصيت کی فائنل تشکیل خود انسان کے اپنےہاتھوں میں ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)