بہت سے لوگ مولانا کے زیرِ بار ہیں
المورد (لاہور)میں ہفتہ وار بیٹھک تھی۔خودکشی کا موضوع زیرِ بحث تھا۔اک نوجوان اپنی آپ بیتی کہنے لگا۔ نوجوان کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:’’میں خودکشی کے سارے عمل سے گزر کر آیا ہوں۔ شدید اضطراب کی کیفیت سے دوچار، زندگی سے بیزار۔ہروقت اسی قلق میں مبتلا۔کب وہ لمحہ آئے اس قیدِ حیات سے آزاد ہو جاؤں۔ بالآخر ایک دن میں نے یہ ٹھان لیا تھا کہ آج مجھے خودکشی کرنی ہے۔ اس کے لیے میںیوٹیوب پر سرچ کررہا تھا کہ مرنے کا آسان طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اسی دوران اچانک مولانا وحید الدین خان کی ایک ویڈیو کلپ سامنے آگئی۔نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس ویڈیوپر کلک کردیا۔اس ویڈیو نے میری زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔وہ لمحہ!! میں جانتا ہوں، یا میرا خدا۔کئی دنوں تک تسلسل کے ساتھ مولانا کو سنتا رہا۔اس کے بعداپنے معالج سائیکیٹرسٹ کے پاس پہنچا۔وہ حیران تھے کہ اتنے دن سے میڈیسن استعمال نہیں کی۔لیکن اس قدر ہشاش بشاش کیسے؟ میں نےبتایا کہ مولانا نے مجھے خودکشی سے بچا کر خدا سے ملوا دیا۔اگر اس وقت مولانا زندہ ہوتے تو میں ان سے ملنے ضرور جاتا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ مولانا کے زیرِ بار ہیں! ایک طویل فہرست کو تو میں جانتا ہوں، گمنام پتہ نہیں کتنے ہوں گے۔یہ لوگ اپنی زندگیوں سےبیزار ہو چکے تھے۔ مولانا نے اپنی گفتگو و تحریر کے ذریعے ان کی زندگی کوایک نیا حوصلہ دیا، امید کی کرن دکھا دی، سسکیوں کو مسکراہٹوں میں تبدیل کردیا اور ایک خاص انداز سے ان کو ان کے حقیقی رب سے روشناس کرواکر حصولِ مقصد کی شاہراہ پر گامزن کردیااور کتنوں کو موت و ہلاکت کی وادی میں جانے سے بچا لیا۔
میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔جب بھی ناامیدی کا شکار ہونے لگتا ہوں،ہر بار مولانا کی تحریر لڑکھڑاتی و ڈگمگاتی زندگی کو اک نئی سمت عطا کرتی ہے، اک حوصلہ نصیب ہوتا ہے، مقصدِ حیات ترو تازہ ہوجاتا ہے، رب تعالیٰکے قرب کی جستجو پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا مولانا کی لحد پہ رحمتوں کی برکھا برسائے اور ان کو ان کےاس عمل کا اپنی شایان شان اجر دے۔( جریر حسین ،+9230669*****)