تین باتیں
میرے نزدیک قرآن اور حدیث میں تین باتیں ایسی ہیں، جن کی واضح تشریح ابھی تک نہیں کی گئی۔ وہ تین باتیں یہ ہیں:
(1) سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
(2) إِنَّ اللهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بیشک اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔
(3) فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ، لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4242)۔ یعنی (قیامت کے قریب) دہیماء کا فتنہ ہوگا، وہ اس امت میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا، مگر وہ اس کو ہٹ (hit)کرے گا۔
یہ تینوں باتیں پیشین گوئی کی نوعیت کی ہیں۔ مگر آج تک اس پیشین گوئی کی تعیین نہیں ہوئی۔ جن الفاظ میں یہ تینوں پیشین گوئیاں آئی ہیں، ان سے بظاہر یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ تینوں واقعات پیش آچکے ہیں۔ مگر کوئی ابھی تک یہ نہ بتاسکا کہ ان پیشین گوئیوں سے متعین طور پر کیا مراد ہے۔ اس مدت میں بے شمار سطریں لکھی گئی ہیں، اور بے شمار باتیں بولی گئی ہیں، مگر اسلام کی مذکورہ پیشین گوئیوں کے بارے میں کوئی تحقیقی بات اب تک سامنے نہ آسکی۔ یہ قوم کے فکری افلاس کی ایک نئی قسم ہے۔ وہ یہ ہے — الفاظ کی بھرمار کے باوجود معانی کاگم ہونا۔
راقم الحروف کا تجربہ ہے کہ پرنٹنگ پریس کے دور میں جتنے کاغذ سیاہ کیے گئے ہیں، اور جتنے الفاظ بولے یا لکھے گئے ہیں، وہ صرف بیسویں صدی میں اتنے زیادہ ہیں، جو پچھلی پوری تاریخ میں موجود نہ تھے۔ مگر دورِ جدید کے معیار کے مطابق، بامعنی کلام کا بظاہر وجود نظر نہیں آتا ہے۔ آپ کسی بھی تقریر یا تحریر کو دیکھیے، تو آپ خود محسوس کریں گے کہ اس میں کوئی ٹیک اوے قاری کے لیے موجود نہیں۔