تضاد میں جینا

لوگوں کی تحریروں کو پڑھیے، تو تقریباً تمام لوگ متضاد باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ہر ایک اپنی جماعت کے کارنامے بیان کرے گا، اور پھر یہ بھی بتائے گا کہ امت اپنی زبوں حالی کی آخری حد پر پہنچ چکی ہے۔ یہ بلاشبہ متضاد بیان ہے۔ اگر آپ کے لیڈر ایک عہد ساز لیڈر تھے تو انھیں لیڈر کے زمانے میں زبوں حالی کا یہ متضاد واقعہ کیوں پیش آیا۔

اس تضاد بیانی کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنی شخصیتوں کو بڑا بڑا کریڈٹ دینا چاہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ اس واقعے کا انکار نہیں کرپاتے کہ ان شخصیتوں نے زمینی سطح پر کوئی مثبت واقعہ انجام نہیں دیا۔ یہ شخصیت پرستی کا ظاہرہ ہے۔ شخصیت پرستی میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ اپنے مزاج کی بنا پر اپنی شخصیتوں کی تعریف میں جینا چاہتے ہیں۔لیکن جب حقیقی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں، تو نظر آتا ہے کہ زمینی حالات اس کی تصدیق نہیں کررہے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے اپنی پسندیدہ شخصیت کو زمانہ ساز شخصیت بتایا ہے۔ مگر دوسرے مقام پر جب وہ اسی عہد کا ذکر کرتے ہیں تو ان کو نظر آتا ہے کہ وہ زمانہ ایک بُرا دور ہے۔

اس تضاد ِ ذہنی کا سبب یہ ہے کہ لوگ غلطی کا اعتراف کرنا نہیں جانتے۔ وہ مفروضہ شخصیتوں کی قصیدہ خوانی سے تو واقف ہیں، لیکن غلطی کا اعتراف کرنے کے الفاظ ان کی ڈکشنری میں موجود نہیں۔ عدم اعتراف کا یہ مزاج بلاشبہ ذہنی ارتقا (intellectual development)میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

غلطی کا اعتراف نہ کرنا، ذہنی ارتقا میں رکاوٹ کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپ ایک شخصیت کو قصیدہ خوانی کا موضوع بنالیں، تو آپ کو صرف الفاظ ملیں گے،حقائق نہیں ملیں گے۔ اسی طرح غلطیوں کا وجود ختم نہیں ہو گا،اور غلطی خواہ کیسی بھی ہو، وہ انسان کو حقائق سے دور کردیتی ہے جو کہ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom