تین ادوار
انسان کی زندگی تین ادوار میں بٹی ہوئی ہے— بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن میں آدمی خود اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے مستقبل کی پلاننگ کرے۔ ماں باپ اکثر لاڈ پیار میں بچپن کے دور کو ضائع کردیتے ہیں۔ خالق انسانوں کو پیدا کررہا ہے، تاکہ وہ زندگی میں کوئی رول ادا کریں۔ مگر صحیح پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگ اپنی زندگی کے امکان کو اویل نہیں کرپاتے۔ وہ نامکمل زندگی گزار کر مرجاتے ہیں۔
زندگی رب العالمین کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس تحفے کو بھرپور طور پر استعمال کرے۔ وہ اس سے اپنے آپ کو بچائے کہ وہ رب العالمین کی طرف سے آئی ہوئی زندگی کو کھودے۔ انسان جب زندگی کو وجود میں نہیں لاسکتا تو اس کو حق بھی نہیں کہ وہ ملی ہوئی زندگی کو ضائع کردے۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان کو موجودہ دورِ حیات میں بھرپور طور پر یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ درست پلاننگ کے ذریعےوہ اپنے کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق کامیاب کرسکے۔اس کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے تجربات ہوتے ہیں، جو دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں ہوتے ہیں۔ گویا کہ ہر انسان اپنے ساتھ ایک پوری لائبریری لیے ہوئے ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے زندگی کی یہ لائبریری ٹیسٹ کا پیپر ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان کو اپنے لیے ابدی کامیابی لکھنی ہے یا ابدی ناکامی۔
قیامت وہ دن ہے، جب کہ ہر انسان کی لکھی یا بغیر لکھی کتابیں، کھل کر سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر انسان یہ جانے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کھویا ، اور کیا پایا۔ اس نے کس موقع کو اویل کیا، او ر کس موقع کو ضائع کردیا۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہوگا کہ کوئی بھی انسان اس پوزیشن میں نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کو ری رائٹ (re-write) کرے۔ کامیاب انسان وہ ہے، جو زندگی کی اس نوعیت کو سمجھے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔