تفسیر قرآن
قرآن کی تفسیر کا مروج طریقہ یہ ہے کہ شان نزول (background of revelation) کو لے کر قرآن کی تفسیر کرنا۔ امام الشاطبی کا قول ہے:معرفة أسباب النزول لازمة لمن أراد علم القرآن ( دَرْجُ الدُّرر فی تَفِسیِر الآیِ والسُّوَر، عبد القاہر الجرجانی، الأردن، 2009، 2/49) یعنی شان نزول کی معرفت ان لوگوں کے لیے لازم ہے، جو قرآن کو جاننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تفسیر کا یہ اصول قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو قرآن کی آیت کی ابتدائی تاریخ بتاتا ہے۔ نزول آیات کے بعد کے زمانے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مگر قرآن کی تفسیر کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مطالعہ کرنے والا قرآن کی تاریخ کو سمجھتا رہے۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نزول کے بعد کے زمانے کے لیے اس آیت کا مدعا کیا ہے۔
شانِ نزول یا سببِ نزول کو جاننا زمانۂ نزول کے اعتبار سے جتنا اہم ہے، اسی طرح زمانۂ نزول کے بعد کے ادوار میں قرآن کے تطبیقی مفہوم (applied meaning)کو جاننا بھی اہم ہے۔ مثلاً قرآن میں سورہ یوسف کی ایک آیت یہ ہے: مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّہُ (12:76)۔ سببِ نزول کے اعتبار سے اس آیت کا ایک مفہوم ہے۔ اگر ہم اس سببِ نزول کو جان لیں تو ہم صرف یہ جانیں گے کہ بوقت نزول اس آیت کا مفہوم کیا تھا۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ بعد کے زمانے میں اس آیت سے کیا عملی اصول معلوم ہوتا ہے تو اس کا علم صرف اس وقت ہوگا کہ جب ہم اس آیت کو اپنے حالات کےلحاظ سے دوبارہ دریافت (rediscover) کریں، اور اس کے تطبیقی مفہوم (applied meaning) کو جانیں۔
قرآن کا تاریخی مطالعہ کرنا ہو تو شانِ نزول یا سببِ نزول کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ اس آیت سے کون سا اصول اخذ ہوتا ہے، اور ہمارے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس اصول کی تطبیق (application) کیا ہے تو قرآن کا تطبیقی مطالعہ ضروری ہوجائے گا۔