بسم اللہ سے آغاز
ایک حدیث رسو ل ان الفاظ میں آئی ہے:کُلُّ کَلَامٍ، أَوْ أَمْرٍ ذِی بَالٍ لَا یُفْتَحُ بِذِکْرِ اللہِ، فَہُوَ أَبْتَرُ - أَوْ قَالَ:أَقْطَعُ- (مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام یا اہم معاملہ جس کو اللہ کے ذکر سے شروع نہ کیا جائے تو وہ دم بریدہ یا کٹا ہوا ہے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہے۔ ان کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ جس کا کام آغاز بسم اللہ سے کیا جائےاس کا انجام بہتر ہوگا، اور جس کام کا آغاز بسم اللہ سے نہ کیا جائے ا س کا انجام بے نتیجہ ہوگا۔
بسم اللہ سے آغاز کا مطلب محض لفظی آغاز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب کام میں خدائی اسپرٹ کا ہونا ہے، نہ کہ لفظی اعتبار سے دہرادینا۔ بسم اللہ سے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو صحیح رخ سے آغاز کرنا۔ کسی کام کو حوصلہ مندانہ اسپرٹ کے ساتھ آغاز کرنا، کسی کام کو اس ذہن کے ساتھ آغاز کرنا کہ کرنے والا اگر چہ انسان ہے، لیکن اس کی تکمیل اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ رب العالمین ضرور اس کام کو تکمیل تک پہنچائے گا۔
کسی کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنے ذاتی عزم (determination) کے ساتھ اللہ رب العالمین کی رحمت کو بھی پوری طرح شامل کر لیا ہے۔ اس نے اپنے اندر یہ اسپرٹ شامل (inculcate) کرلیا ہے کہ خواہ حالات کچھ بھی پیش آئیں، اس کی نظر حالات کے بجائے اللہ کی رحمت پر ہونی چاہیے۔
بندے کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ایسی حالت میں کسی کام کو شروع کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی حقیقت کو یاد کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنی محدودیت کے ساتھ اللہ کی لامحدودیت کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ اس نے امید کے ساتھ یقین کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔ بندے کی طرف سے یہ اسپرٹ گویا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ یہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ہے۔