دو دنیائیں
قرآن میں دو دنیاؤں کا ذکر ہے۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسری مادی دنیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی دنیا عملاً دار الفساد بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (30:41)۔ یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ انسانی دنیا سے مراد زمین پر قائم شدہ وہ دنیا ہے، جہاں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ قرآن اور تاریخ دونوں کا بیان ہے کہ یہ دنیا عملاً دار الفساد (world of corruption) بنی ہوئی ہے۔
دوسری دنیا وہ ہے، جس کو سمجھنے کے لیے ہم فطرت کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی دنیا سے مراد وہ مادی دنیا ہے، جو قوانین فطرت (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔ اس دنیا کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک آئڈیل ورلڈ ہے۔ مثلاً سورج کے طلوع کا جو وقت ہے، وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اسی طرح سورج کے غروب کا جو وقت ہے، وہ بھی ہمیشہ یکساں رہتا ہے، وغیرہ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (36:40)۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات، دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
گویا یہ کائناتی دنیا خالی از فطور دنیا (flawless world) ہے۔ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے، جو صحت کی بنا پر پورے معنوں میں ایک قابل پیشین گوئی دنیا (predictable world)ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا پوری کی پوری ناقابل پیشین گوئی دنیا (unpredictable world) بنی ہوئی ہے۔
یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ اس فرق کے تقابلی مطالعے (comparative study) کے ذریعے ہم ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرتے ہیں، اور وہ اللہ رب العالمین کی دریافت ہے، جو اپنی غیر معمولی طاقت کے ذریعے پوری کائنات کو نہایت صحت کے ساتھ مینج (manage)کر رہا ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اس قسم کا مینجمنٹ موجود نہیں۔ دونوں دنیاؤں کے فرق پر اس عالمی اصول کو منطبق کیجیے، جو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہےکہ چیزیں تقابل کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں:
تعرف الاشیاء باضدادھا
In comparison that you understand
انسانی دنیا میں نقص کا موجود ہونا، یہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کا مینیجر انسان ہے، اور انسان کا مینجمنٹ اس کی اپنی کمزوریوں کی بنا پر پُر عیب مینجمنٹ (defective management) بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا منتظم (manager) ایک ایسی ہستی ہے، جو پوری طرح عیب اور نقص سے خالی ہے۔ اس کی ہستی ہر اعتبار سے ایک بے عیب ہستی ہے۔یہ فرق اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
موجودہ دنیا میں امتحان عقل کا ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔