قرآن کا انقلاب

قرآن نے تاریخِ انسانی میں ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ یہ سوچ قرآن میں لفظی طور پر اشارے کی زبان میں ہے، اور عملی طور پر وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی صورت میں ۔ قرآن کے الفاظ میں وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ رُجزکو اوائڈ کرکے اپنے مثبت عمل کا منصوبہ بنانا (المدثر،74:5)۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اسٹرٹیجی کے اصول پر اپنا مشن چلایا۔ مثلاً مکہ میں مقدس کعبہ کے اندر کئی سو بت رکھے ہوئے تھے، جو بلاشبہ ایک موحد انسان کے لیے ایک اشتعال انگیز منظر تھا۔ یہ بت بظاہر رجز (گندگی)تھے۔ لیکن اسی رجز کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ عرب کے قبائل اپنے عبادتی رسوم کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ نے رجز کے خلاف کوئی براہ راست تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ اس معاملے میں آپ نےڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی آپ نے رجز کے اشو کو نظر انداز کیا، اور مشرکین کے اجتماع کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔

یہ گویا معاملے کے دو پہلوؤں کے درمیان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)تھی۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی غالباً تاریخ میں پہلی بار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن میں کامیابی کے ساتھ استعمال کی۔ اگرچہ مسلمان اس سنتِ رسول کو سمجھ نہ سکے، اور وہ بعد کی تاریخ میں اس حکیمانہ پالیسی کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی اصول تھا، جو پیغمبرِ اسلام نے پہلی بار تاریخِ انسانی کو عطا کیا۔

ڈی لنکنگ پالیسی کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی غیر ضروری ٹکراؤ سے اپنے آپ کو بچائے، اور موجود مواقع (opportunities) کوبھر پور طور پر استعمال کرے۔ ڈی لنکنگ پالیسی آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حریف کو اپنا موید (supporter) بنالے، وہ اپنے عدو کوعملاً اپنے ولی حمیم (فصلت، 41:34) کا درجہ دے دے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom