اسفل سافلین کیوں

قرآن کی سورۃ التین میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا، اس کے بعد اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب ایک اور حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)۔ یعنی جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا، جس کے دل میں ذرے کے برابر کبر ہو۔

انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عمومی طور پر اس کا حال یہ ہے کہ وہ احسن تقویم کا تحمل نہیں کرپاتا۔ وہ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کسی کے اندر یہ نفسیات کم ہوتی ہے، اور کسی کے اندر زیادہ۔انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج ہو، اور یہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ انسان آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)ہوجائے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہوتا ہے، اس وقت اس کے اندر تواضع (modesty)آتا ہے۔ وہ حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ اس کے اندر اپنے محاسبے کامزاج پیدا ہوتا ہے۔ وہ متکبر انسان کے بجائے متواضع انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر خودپسندی کے بجائے خدا پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ آخری حد تک سنجیدہ (sincere) بن جاتاہے۔ اس کے ذہن کی تمام بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں، یہ صفتیں آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنے پوٹینشل کو ایکچول بنائے۔

یہ صفات آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اللہ رب العالمین کے مقابلے میں حقیقی معنوں میں عبد بن جائے۔ وہ قادرِ مطلق خدا (all-powerful God) کے مقابلے میں عاجز مطلق (all powerless) کی دوسری حد (extent) بنائے۔

انسان چوں کہ اس دنیا میں ایک مکرم مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے تمام انسان کسی نہ کسی درجے میں کبر (arrogance) کا کیس بن جاتے ہیں۔ یہ نفسیات انسان کی ترقی میں حتمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کا موثر حل صرف یہ تھا کہ انسان کے اوپر اس معاملے میں دباؤ (compulsion)پیدا کیا جائے۔ یہی کمپلشن پیدا کرنے کے لیے خالق نے انسان کو احسن تقویم ہونے کے باوجود اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا۔ اگرچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس شدید تجربے کے باوجود تاریخ میں بہت کم انسان ایسے نکلے جو اس معیار پر پورے اتریں۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید پوری تاریخ گزرجاتی، اور کوئی ایک انسان بھی ایسا پیدا نہ ہوتا جو اللہ کے عظیم عطیے کو پاکر حقیقی معنوں میں اس کا بندہ ٔشاکر بن جائے۔

احسنِ تقویم سے مراد فطرت کا عطیہ ہے، اور اسفل سافلین سے مراد وہ ناپسندیدہ صورت حال ہے، جو اسباب و علل کے تحت انسان کو پیش آتی ہے۔ اگر آدمی حالات کو مینج (manage)کرنا سیکھ لے، تو وہ اس آزمائش میں بچ جائے گا، اور اگر وہ آرٹ آف مینجمنٹ نہ جانے تو وہ آزمائش کا شکار ہوکر ناکام رہےگا۔ اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی دونوں انسان کا اپنا فعل ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔ منفی انداز فکر انسان کو بگاڑتا ہے، اور مثبت انداز فکر انسان کو بچالیتا ہے۔

 

جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میں اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom