جنت کی تلاش
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے 100 دن پورے کرنے کے بعد ایک انٹرویو دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس میں بحیثیت صدر داخل ہونے سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ وائٹ ہاؤس میرے خوابوں کی دنیا ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔وائٹ ہاؤس میرے لیے ایر کنڈیشنڈ قفس کی مانند بن گیا۔ وائٹ ہاؤ س سے پہلے کا دور میرے لیے ناسٹلجیا (nostalgia) بن گیا۔
یہی اس دنیا میں ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی گویا جنت کی تلاش میں ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری کوشش سے اپنے لیے خوابوں کی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے— کوٹھی، بنگلہ، محل، فارم ہاؤس، وغیرہ۔ مگر جب وہ اپنی اس دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ کہیں اور آگیا ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں جو اس کی خوابوں میں بسی ہوئی تھی۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا تعمیر جنت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کا مقصد یہ ہے کہ آدمی یہاں مختلف حالات کے درمیان اپنے اندر وہ شخصیت بنائے جو اگلے مرحلۂ حیات میں جنت میں داخلے کےلیے منتخب کی جائے۔ مگر انسان غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنی جنت اسی دنیا میں بنا سکتا ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ شاندار امنگوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے، مگر آخر میں ہر ایک کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی (frustration) میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور ناکامی کی موت مرکر اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال ہر ایک کی مثال ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ اگر انسان ایسا کرے تو اس پر کبھی مایوسی کا دور نہیں آئے گا۔ وہ ایک کامیاب زندگی جیے گا، اور جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو اس احساس کے ساتھ جائے گا کہ اس نے اپنی مطلوب منزل کو پالیا۔