تاریخ کا اعادہ
یہود کی تاریخ کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ۔ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ (2:58-59)۔ یعنی اور جب ہم نے کہا کہ داخل ہوجاؤ اس شہر میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو فراغت کے ساتھ، اور داخل ہو دروازے میں سرجھکائے ہوئے اور کہو کہ اے رب ! ہماری خطاؤں کو بخش دے۔ ہم تمہاری خطاؤں کو بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے۔ تو ظالموں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی، دوسری بات سے۔ اس پر ہم نے ان لوگوں کے اوپر جنھوں نے ظلم کیا، ان کی نافرمانی کے سبب سے، آسمان سے رِجز اتارا۔
یہی واقعہ بدلی ہوئی صورت میں امتِ مسلمہ کے ساتھ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا زمانہ تھا، وہ زمانہ جس میں مواقع (opportunities)کا انفجار تھا،جہاں ان کے لیے ہر قسم کے مواقع اعلیٰ پیمانے پر موجود تھے۔ اس زمانے کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے بہت پہلے کردی تھی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں دینِ اسلام کی صداقت بن جائیں گی(سورۃ فصلت، 41:53)۔اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے میں غیر مسلم قومیں بھی اسلام کی موید (supporters)بن جائیں گی(مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ موجودہ زمانے میں یہ پیشین گوئی پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔لیکن مسلمان اپنے منفی نفسیات کی بنا پر ان مواقع کو پہچاننے میں ناکام ہوگئے۔ بجائے اس کے کہ وہ دور حاضر کے ان مواقع کو خدائی مشن، دعوت الی اللہ، کے لیے استعمال کرتے، وہ دور حاضر کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف ہوگئے۔ یہ واقعہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ رب العالمین کے منصوبے کو سمجھنے میں ناکام رہے۔